… میاں صاحب! آپ نے اپنے رسالہ تشحیذ الاذہان بابت ماہ اپریل ۱۹۱۰ء زیر عنوان ’’مضمون نجات‘‘ میں لفظ خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’حضور پاک حضرت محمد رسول اﷲ ایسے خاتم النبیین ہیں کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آئے گا۔ جس کو مقام نبوت پر کھڑا بھی کیا جائے اور جو آئیں گے وہ اولیاء اﷲ، متقی، پرہیزگار ہوں گے اور جو ان کو ملے گا وہ حضور کی وساطت سے ملے گا اور آپ کے مذہب، تعلیم، عہدہ کی میعاد قیامت تک ہے۔‘‘
اسی طرح آپ نے مورخہ ۱۳؍مارچ ۱۹۱۱ء کے اخبار الحکم میں زیر عنوان ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو خاتم النبیین کے مرتبہ پر قائم کر کے آپ پر ہر قسم کی نبوتوں کا خاتمہ کر دیا۔‘‘
ان ہر دو تحریرات کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے جو کہا ہے کہ اور تا بالکسر کسی قرآن میں نہیں۔
ہم آپ سے یہ دریافت کرتے ہیں کہ جب آپ نے رسالہ تشحیذ الاذہان بابت ماہ اپریل ۱۹۱۰ء میں زیر عنوان مضمون ’’نجات‘‘ اور ۱۳؍مارچ ۱۹۱۱ء کے اخبار الحکم کے زیر عنوان خاتم النبیین میں لفظ خاتم النبیین کی تشریح کی تھی اور کہا تھا کہ اب قیامت تک حضور کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ بلکہ کسی کو مقام نبوت پر کھڑا بھی نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت خاتم النبیین کی تابالکسر تھی یا نہیں۔ جس کے تحت آپ نے حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد نبی کے آنے کی نفی کی تھی اور اب بالکسر سے باالفتح کیسے بن گئی؟ ذرا اس کا فارمولا بھی بتلادیجئے۔ تاکہ آپ کے اس خیال سے کوئی دوسرا بھی فائدہ حاصل کر سکے؟
(میاں صاحب پر بھی خاموشی کا عالم طاری ہوگیا)
اختر… شوخ صاحب! اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے علمائے دین تو بڑے زور سے یہ کہا کرتے ہیں کہ اب حضورﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ مگر یہاں پر اس کے برعکس ثابت ہوا ہے اور دوسرے میاں صاحب جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
شوخ… اختر میاں! تم نے دیکھا نہیں کہ پہلے مرزاقادیانی اور میاں صاحب دونوں ہمارے علمائے دین کی طرح اس بات کے قائل تھے کہ نبی کریمﷺ ایسے خاتم النبیین ہیں کہ اب قیامت تک آپ کے بعدکوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوسکتا۔ مگر ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ جب میاں صاحب کا مرزاقادیانی کو نبی بنانا مطلوب تھا تو انہوں نے تا باالفتح کے اصول کے تحت ان کی