اس قدر توجہ تھی۔ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۶۳، خزائن ج۱۳ ص۱۸۱)
یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا اور مرزاقادیانی کو اپنے والد کے اصرار سے آبائی زمینداری کے حصول کے لئے جدوجہد اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا۔
وہ لکھتے ہیں: ’’مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان جھگڑوں میں ضائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۶۴، خزائن ج۱۳ ص۱۸۲)
ملازمت اور مشغولیت
مرزاقادیانی نے سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازمت کر لی تھی۔ وہ ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء تک چارسال اس ملازمت میں رہے۔
دوران ملازمت میں انہوں نے انگریزی کی بھی ایک دو کتابیں پڑھیں۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۵۵،روایت نمبر۱۶)
اسی زمانہ میں انہوں نے مختاری کا امتحان دیا۔ لیکن اس میں ناکامیاب رہے۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۵۶،ایضاً)
۱۸۶۸ء میں وہ اس ملازمت سے استعفاء دے کر قادیان آگئے اور بدستور زمینداری کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ ’’مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۶۹، خزائن ج۱۳ ص۱۸۷)
اخلاق واوصاف
مرزاقادیانی بچپن ہی سے بہت سادہ لوح تھے۔ دنیا کی چیزوں سے ناواقفیت اور استغراقی کیفیت شروع ہی سے ان میں نمایاں تھی۔ ان کو گھڑی میں چابی دینے میں ناغہ ہوجاتا۔
(سیرت المہدی ص حصہ اوّل۱۲۷،روایت نمبر۴۴۴)
’’جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسہ یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہندسے گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے۔ گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۸۰، روایت نمبر۱۲۵)
فرط استغراق میں دائیں بائیں جوتے کا امتیاز مشکل ہو جاتا تھا۔ مرزابشیراحمد صاحب