اور مرزاصاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے علاقہ میں پانچ گاؤں واپس ملے۔
(کتاب البریہ ص۱۵۶،۱۵۸، خزائن ج۱۳ ص۱۷۴،۱۷۶)
مرزاقادیانی کا خاندان انگریزی حکومت سے جو پنجاب میں نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ شروع سے وفادارانہ ومخلصانہ تعلق رکھتا تھا۔ اس خاندان کے متعدد افراد نے اس نئی حکومت کی ترقی اور اس کے استحکام میں جانبازی اور جانثاری سے کام لیا تھا اور بعض نازک موقعوں پر اس کی مدد کی تھی۔
مرزاقادیانی کتاب البریہ کے شروع میں ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزاغلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا۔ جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانۂ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں۔ مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں۔ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے دادا صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزاغلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تموں کے گزرپر مفسدوں کا سرکار انگرزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۷۷، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
پیدائش، تعلیم وتربیت
مرزاقادیانی سکھ حکومت کے آخری عہد ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ضلع گورداسپور کے قصبۂ قادیان میں پیدا ہوئے۔ (کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
خود ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے وقت وہ سولہ سترہ برس کے تھے۔ (کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
مرزاقادیانی نے اپنے گھر ہی پر متوسطات تک تعلیم پائی۔ انہوں نے مولوی فضل الٰہی مولوی فضل احمد اور مولوی گل علی شاہ سے نحو اور منطق کی کتابیں پڑھیں۔ طب کی کتابیں اپنے والد صاحب سے پڑھیں جو ایک حاذق طبیب تھے۔ مرزاقادیانی کو اپنی طالب علمی کے زمانہ میں کتابوں کے مطالعہ میں بڑا انہماک تھا۔ وہ لکھتے تھے: ’’ان دنوں میں مجھے کتابوں کی طرف اس