اسی کتاب کے حاشیہ پر وہ لکھتے ہیں: ’’الہام میری نسبت یہ ہے ’’الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل من فارس۱؎‘‘یعنی اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو یہ مرد جو فارس الاصل ہے وہ جاکر اس کو لے لیتا اور پھر ایک تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے۔ ’’ان الذین کفروا رد علیہم رجل من فارس شکر اﷲ سعیہ‘‘ یعنی جو لوگ کافر ہوئے۔ اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے۔ ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکرگزار ہے۔ یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔ والحق ما اظہرہ اﷲ‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۱۴۵، خزائن ج۱۳ ص۱۶۳)
نیز اربعین میں لکھتے ہیں: ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے۔ کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا۔ ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں۔ اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اﷲتعالیٰ کو معلوم ہے۔ کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں۔ اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی ہے۔‘‘
(اربعین ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)
مرزاقادیانی کے پردادا مرزاگل محمد، صاحب جائداد واملاک تھے اور پنجاب میں ان کی اچھی خاصی ریاست تھی۔ مرزاقادیانی نے ان کی رئیسانہ شان، تزک واحتشام ان کے وسیع دسترخوان اور ان کے دینی اثرات کو تفصیل سے لکھا ہے۔
(کتاب البریہ ص۱۴۷، ۱۵۲، خزائن ج۱۳ ص۱۶۵،۱۷۰)
ان کے انتقال کے بعد اس ریاست کو زوال آیا اور سکھ ریاست کے دیہاتوں پر قابض ہوگئے۔ یہاں تک کہ مرزاقادیانی کے دادا مرزاعطاء محمد کے پاس صرف قادیان رہ گیا۔ آخر میں سکھوں نے اس پر بھی قبضہ کر لیا اور مرزاقادیانی کے خاندان کو قادیان سے نکال دیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخر زمانہ میں مرزاقادیانی کے والد مرزاغلام مرتضیٰ قادیان واپس آئے
۱؎ یہ حدیث صحاح میں الفاظ کے خفیف اختلاف کے ساتھ آئی ہے۔ بعض روایتوں میں رجال من فارس بھی ہے۔ علماء ومحدثین نے اس سے حضرت سلمان فارسیؓ اور ان ایرانی النسل علماء واکابر کو مراد لیا ہے جو اپنی قوت ایمانی اور خدمت دینی میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ انہیں میں امام ابوحنیفہؒ بھی ہیں جو فارسی الاصل ہیں۔