جواب مرزا
۱… ’’قرآن کریم کے بعد خاتم النبیین کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا ہو یا پرانا۔ کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے اور باب نزول جبرائیل علیہ السلام پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ رسول تو آئے مگر سلسلۂ وحی رسالت نہ ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
۲… ’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت ’’خاتم النبیین‘‘ میں وعدہ دیاگیا ہے کہ اب جبرائیل علیہ السلام بعد وفات رسول کریمﷺ ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۷۷، خزائن ج۳ ص۴۱۲)۳… حسب تصریح قرآن کریم رسول اس کو کہتے ہیں۔ جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔ لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷)
۴… ’’کیونکہ یہ ثابت حقیقت ہے کہ اصلی رسالت بالوحی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر منقطع ہوکر ختم ہوگئی ہے۔‘‘ (دین حق ص۲۷)
۵… ’’اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدورفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اﷲ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو پیدا ہو جائے اور جوامر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۸۳، خزائن ج۳ ص۴۱۴)
سوال نمبر:۱۲…مرزاقادیانی! یہ تو ثابت ہوگیا کہ نبوت رسالت اور وحی رسالت وغیرہ پر مہر لگ گئی ہے۔ جو کہ قیامت تک نہیں ٹوٹ سکتی اور رسول بغیر وحی رسالت کے ہر گز نہیں آسکتا۔ کیونکہ اس کے ساتھ وحی رسالت کا ہونا لازمی امر ہے۔ مگر جبرائیل علیہ السلام کو خدا نے منع کر دیا ہے اور اگر رسول آئے تو اس کے ساتھ کتاب کا ہونا بھی لازمی ہے۔ چونکہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوکر حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ختم ہوگئی ہے۔ اس لئے آپ خاتم النبیین ٹھہرے۔ مگر میں یہ پوچھتا ہوں کہ جو شخص حضور پرنورﷺ کے بعد سلسلہ وحی نبوت جاری کرے۔ اس کے لئے آپ کا کیا خیال ہے؟