برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں توڑا گیا اور تعدد از دواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی ہونے کے مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ وہ لوگ اس صورت میں قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)
۲۰… ’’میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ پنجتن پاک میرے پاس آئے اور دبڑ دبڑ کر کے جوتوں کی آواز سے ان میں سے ایک بڑی پاک وضیع شکل نے میرا سر اپنی ران پر رکھ کر مجھے مادر مہربان کی طرح اپنی گود میں لٹا لیا اور وہ بی بی فاطمتہ الزہراؓ تھیں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۰۳ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۵۹۹)
۲۱… ’’میں نے لاہور میں جاکر طوائفوں کو سمجھایا کہ اگر تم توبہ کرو تو تمہارا رتبہ دروپتی، سیتا، مریم اور بی بی فاطمتہ الزہراؓ کی شان سے بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کیسے ہوسکتا ہے تو میں نے کہا تم نہیں دیکھتیں جن کھیتوں میں زیادہ گند پڑتا ہے وہ زیادہ زرخیز ہیں۔‘‘
(فلسفہ فلاسفر ص۴۹، لطیفہ نمبر۵۹ مصنفہ الٰہ دین قادیانی)
شوخ… الغرض! اس قسم کے کفریات اور گستاخی آمیز کلمات سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہی موجود ہیں۔ جو مرزاقادیانی اور ان کے حواریوں کی دریدہ دہنی کا ثبوت ہیں۔ مگر طوالت مضمون کے سبب اس جگہ صرف انہیں حوالہ جات پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ عاقل را اشارہ کافی است!
کیا کوئی مسلمان ان حوالہ جات کو سن کر پڑھ کر جوش میں نہیں آتا۔ یا اس کا خون کھولنے نہیں لگتا۔ یا اس کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے۔ اس وقت کہ جب وہ اپنی آنکھوں سے ان برگزیدہ ہستیوں کے متعلق اس قدر فحش الفاظ پڑھے یا سنے۔ جن کو کہ خدا نے اپنی خاص رحمت سے چن لیا ہو۔
کیا وجہ ہے کہ اگر ہم مسئلہ ختم نبوت جو کہ قران وحدیث یا اقوال مرزاقادیانی سے ثابت ہورہا ہے۔ اس کو دہرائیں یا عوام کوبتائیں تو ہمیں قانون کی زد میں لاکر کسی دفعہ کے ماتحت جیل خانہ کی تنگ وتاریک کوٹھری میں اس لئے بھیج دیا جاتا ہے کہ اس سے منافرت پھیلتی ہے اور مرزائیوں کے دل پر ٹھیس لگتی ہے۔ مگر جب مرزاقادیانی یا اس کے حواری اس قدر فحش کلامی کے مرتکب ہوں تو ٹس سے مس نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎