ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں۔ جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کرو اس کے مقابلہ میں میں دو دو احمدی ’’مرزائی‘‘ پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ، منقول احسان اخبار ۱۲؍جولائی ۱۹۵۲ئ)
جب ملک میں یہ شور برپا ہوگیا تو مرزائیوں نے اپنے نبی قادیانی کی پوزیشن صاف کرنے کے لئے اپنے اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۵۲ء میں خاتم النبیین نمبر شائع کر کے اپنی جماعت کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً مفت تقسیم کیا اور اس میں اس بات پر زور دیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی پر یہ ایک تہمت ہے کہ انہوں نے دعویٰ نبوت کا کیا یا آپ منکر ختم نبوت ہیں۔ بلکہ وہ تو حضرت محمد مصطفیﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دیتے ہیں اور مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اس کو کافر کاذب بے دین اور خارج از اسلام تصور کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ!
ناظرین! یہ حوالہ جات انہوں نے مرزاقادیانی کی کتابوں سے اس لئے پیش کئے تاکہ سادہ لوح مسلمان اس کو پڑھ کر مرزاقادیانی کو بری الذمہ تصور کریں۔ اور اپنے علماء کرام اسلام پر بدظن ہو جائیں کہ وہ محض شرارت کی وجہ سے مرزاقادیانی کو ملزم قرار دیتے ہیں۔ دراصل ان کا دعویٰ ’’نبوت‘‘ نہیں اور نہ ہی آپ منکر نبوت ہیں۔ بلکہ ایسے شخص کو وہ بے دین، کافر، کاذب، لعنتی اور خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔
لیجئے حضرات! یہ ہے حقیقت مرزائیوں کے خاتم النبیین نمبر کی۔ جو کہ انہوں نے ۲۷؍جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ الفضل میں شائع کیا۔
ہم حیران ہیں کہ مرزائی دن دہاڑے عوام کی آنکھوں میں کیوں دھول ڈال رہے ہیں۔ یہ چیز تو ان لوگوں کے واسطے مرزائیوں کو کام دینے والی ہے کہ جو مرزاقادیانی کے لٹریچر سے ناواقفیت رکھتے ہیں۔ مگر جو حضرات مرزاقادیانی کی کتابوں سے پورے طور پر واقف ہیں وہ تو اس کو پڑھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بھلا اس بات کو کون نہیں جانتا کہ جب تک مرزاقادیانی کی پٹری نہیں جمی تھی اس وقت تک وہ حضور پرنور، دل کے سرور، حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ختم الانبیاء سید المرسلین، شفیع المذنبین، رحمت العالمین، خاتم النبیینﷺ کی ختم نبوت کے قائل اور نبیوں کے