میں لانے سے قاصر ہے۔ چونکہ حکومت برطانیہ کی تھی اور یہ ان کے اکلوتے بیٹے کی طرح تھے۔ جن کی ناز برداری حکومت برطانیہ نے اپنا فرض قرار دیا ہوا تھا۔ اس لئے کسی کا شکوہ شکایت مرزائیوں کے خلاف نہیں سنا جاتا تھا۔ بلکہ ایسا کرنے والے کئی کئی سال کے لئے جیل خانوں کی ہوا کھانے کو بھیجے جاتے۔ جس کی وجہ سے جماعت مرزائی کے حوصلے اور بھی بڑھتے اور وہ دل کھول کھول کر مسلمانوں کے خلاف بدزبانی اور بدکلام کرتے چلے جاتے۔ لہٰذا یہ سلسلہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء تک بدستور قائم رہا۔ چنانچہ اﷲ جل شانہ عم نوالہ کی ذات بابرکات جوش رحمت میں آئی اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو اپنا فضل وکرم کر کے مسلمانوں کے گلے سے برطانیہ کا ’’طوق غلامی‘ ‘ اتار کر قائداعظمؒ کی وساطت سے ایک علیحدہ آزاد اسلامی سلطنت بخشی۔ جس کا نام ’’پاکستان‘‘ ہے اور اسلامی حکومتوں میں ایک اور سب سے بڑی سلطنت قائم ہے۔ اﷲتعالیٰ خود اس کا محافظ نگہبان ہو۔ آمین ثم آمین!
اسلام زندہ باد … قائداعظم زندہ باد … پاکستان زندہ باد
مگر مرزائیوں نے پاکستان میں آکر بھی اپنے اباجان مرزاقادیان کی اتباع کر کے اس پرانی ’’انی دھنا سری‘‘ کی راگنی کو بغیر سروتان وسازوسامان ہروقت الاپنا شروع کر دیا اور اس قدر تجاوز کر گئے کہ ’’سرظفر اﷲ خان وزیر خارجہ پاکستان‘‘ نے مرزائیہ کانفرنس کراچی جہانگیر پارک میں ۱۸؍مئی ۱۹۵۲ء کو اپنی تقریر میں اس قدر دریدہ دہنی کا ثبوت دیا کہ الامان۔
ملاحظہ ہو: ’’اگر نعوذ باﷲ آپ کے وجود (یعنی مرزاقادیانی کو) کو درمیان سے نکال دیا جائے تو اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ وغیرہ وغیرہ!‘‘
بس سرظفر اﷲ خان کا یہ کہنا اس کے لئے زہر قاتل ہوگیا۔ ایسے نازیبا الفاظ مسلمان کب برداشت کر سکتے تھے۔ جگہ جگہ پراس کے خلاف جلسے وجلوس شروع ہوگئے۔ جس کے نتائج نہایت ہی ناخوشگوار ثابت ہوئے۔ سینکڑوں گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ کئی ایک فدایان اسلام جام شہادت نوش کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
آخر کار گورنمنٹ پاکستان کو اپنا انتظام برقرار رکھنے کی خاطر دفعہ۱۴۴ تعزیرات پاکستان کا نفاذ کر کے عام جلسوں اور جلوسوں پر پابندیاں عائد کرنی پڑیں۔ تاکہ دوفرقوں کے درمیان منافرت نہ پھیلے۔ چونکہ مسلمانوں نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کیا کہ جب ان کا نبی علیحدہ ہے اور یہ ہم کو مسلمان تصور نہیں کرتے تو ان کو اقلیت قرار دیا جائے وغیرہ… جس کے ساتھ میاں محمود احمد خلیفہ قادیان خود بھی اتفاق رکھتے ہیں۔ مرزامحمود نے کہا: ’’میں نے ایک نمائندہ کی معرفت