دیباچہ
برادران اسلام! آج مسلمانوں اور مرزائیوں کے مابین جو مسئلہ زیربحث ہے وہ مسئلہ ’’ختم نبوت‘‘ ہے۔ یعنی مسلمان تو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو خاتم النبیین اس طرح خیال کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد اب کوئی نبی یا رسول اصلاح خلق کے لئے تاقیامت پیدا نہیں ہوگا۔ آپ سب نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے آپؐ کے بعد دروازہ نبوت قیامت تک بند کر دیا۔ آپؐ کی نبوت ورسالت قیامت تک ہے۔ آپؐ کی شریعت یعنی قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے اور اب کوئی دوسری شریعت بعد از قرآن مجید نہیں آسکتی وغیرہ وغیرہ!
اور جماعت مرزائیہ یہ کہتی ہے کہ حضورﷺ کے بعد سلسلہ نبوت قیامت تک جاری رہے گا اور مرزاقادیانی آپؐ کے بعد نبی ہیں اور حضرت محمد مصطفیﷺ کی مہر سے تاقیامت نبی بنتے رہیں گے۔
لیجئے حضرات! یہ ہے تفاوت مسلمانوں اور مرزائیوں کے درمیان۔ چونکہ مرزاغلام احمد قادیانی گورنمنٹ برطانیہ آنجہانی کا خودکاشتہ پودہ تھا۔ جس کی تخم ریزی اس نے اپنے منحوس ہاتھوں سے کی۔ اس کی باڑ بن کر نہایت نازونعمت سے اس کو عالم طفلی سے بلوغ تک پالا پوسا۔ مگر جونہی یہ جوان ہوا تو اس کا پھل دیگر مذاہب کے لئے عموماً اور اسلام کے لئے خصوصاً تلخ ثابت ہوا۔
کیونکہ مرزاقادیانی نے پہلے تو مسئلہ جہاد کو منسوخ قرار دیا۔ بعد میں ختم نبوت کے منکر ہوکر خود مدعی نبوت بن بیٹھے اور ساتھ ہی انبیاء علیہم السلام کی توہین سے مرتکب ہوئے۔ جو کہ خلاف شریعت محمدیہ تھی اور اسی طرح سے ۱۸۸۰ء سے لے کر ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء تک گورنمنٹ برطانیہ کی کٹھ پتلی بن کر ہر ایک مسلمان کے سینے میں نشتر لگالگا کر اس پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے رہے۔ آخر کار ۲۶۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرض ہیضہ سے سوادس بجے قبل از دوپہر اس جہان فانی سے تشریف لے گئے۔ ’’خس کم جہاں پاک‘‘
اس کے بعد حکیم نور الدین قادیانی خلیفہ اوّل مقرر ہوئے اور پھر ان کی وفات کے بعد مرزاقادیانی کے فرزند مرزابشیرالدین محمود خلیفہ ثانی، قادیانی خلافت پر متمکن ہوئے اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس قدر مسلمانوں کے ساتھ بذریعہ تقریر وتحریر سلوک کیا کہ قلم احاطہ تحریر