… ’’بعض کا یہ خیال ہے کہ اگر کسی الہام کے سمجھنے میں غلطی ہو جائے تو امان اٹھ جاتا ہے اور شک پڑ جاتا ہے کہ شاید اس نبی یا رسول یا محدث نے اپنے دعویٰ میں بھی دھوکہ کھایا ہے۔ یہ خیال سراسر سفسطہ ہے اور جو لوگ …… سودائی ہوتے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۲۴، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲،۱۳۳)
خلاصہ: خلاصہ ہرسہ تحریرات مرزاقادیانی یہ نکلا کہ نبی اور رسول اپنے دعویٰ نبوت اور رسالت میں دھوکہ نہیں کھاتے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ ان کے دل میں ان کی نبوت کا یقین بٹھا دیتا ہے۔
مرزاناصر احمد قادیانی! اگر آپ کے ابا جان کے مذکورہ بالا بیان (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۴۹ئ) کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ہمارا تو کوئی نقصان ہی نہیں۔ البتہ آپ کی بنی بنائی عمارت سطح زمین سے بھی پونے چار انچ اونچی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر مرزاقادیانی کی اجتہادی غلطی کو بقول آپ کے ابا جان تسلیم کر لیا جائے تو پھر مرزاقادیانی کا کہنا کہ مجھے الہام ہوتا ہے۔ مجھے وحی سے سرفراز کیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ! یہ سب کچھ فراڈ ہی بن جائے گا اور اس کی اصلیت کچھ بھی نہیں رہے گی۔ کیونکہ مرزاقادیانی یہ کہتے ہیں کہ: ’’مجھے اپنی وحی پر ایسا یقین ہے جیسا کہ قرآن پر۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۲۴)
جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مرزاقادیانی کی ’’نبوت ورسالت‘‘ سے آپ کو ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس لئے کہ مرزاقادیانی نے اپنے بیانات میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ نبیوں اور رسولوں کو دعویٰ نبوت میں اجتہادی غلطی نہیں لگ سکتی اور اگر نبی اور رسول کو اپنے دعویٰ نبوت میں اجتہادی غلطی لگ جائے تو پھر مرزاقادیانی کی حیثیت عوام جیسی ہوگئی۔ جس کو ماننے کے لئے ہر ایک شخص تیار ہے۔
اور اگر اپ ان کو نبیوں اور رسولوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو یہ خیال بمعہ اپنے اباجان کے واپس لینا پڑے گا۔ ہمارا تو کام صرف سمجھانا ہے۔ عمل کرانا نہیں ہے۔
ناصر احمد قادیانی! اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ مرزاقادیانی نبی کی تعریف یہ خیال کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ اپنے ایک خط مورخہ ۱۸؍اگست ۱۸۹۹ء میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’مگر چونکہ اسلام کی اصلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی صادق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔‘‘