قادیانی اور میاں محمود احمد قادیانی خلیفہ ثانی اور علماء مرزائیہ کے متعلق کیا ہے؟
جواب کا منتظر! شوخ بٹالوی
شوخ… مرزاناصر احمد قادیانی! اگر آپ ہمارے ’’نبوت‘‘ سے متعلق سوالات کے جواب میں یوں ارشاد فرماویں۔ جیسا کہ آپ کے ابا جان نے کہا کہ: ’’مرزاقادیانی نبوت کو محدثیت خیال کرتے رہے۔‘‘
۲… ’’مسیح موعود شروع میں اس اجتہادی غلطی میں مبتلا تھے کہ ان چیزوں کا نام نبوت نہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۴۹ئ)
تو یہ بیان اس جگہ آپ کے واسطے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ کیونکہ ہمارے علماء محمدیہ نے تو یہ سمجھ لیا کہ مرزاقادیانی کی تحریرات میں دعویٰ نبوت موجود ہے۔ گو وہ محدثیت کے پردہ میں نشوونما پارہا ہے۔ جس کی تصدیق آپ کے علماء مرزائیہ نے بھی پوری پوری وضاحت کے ساتھ کر دی کہ واقعی وحی الٰہی اور الہامات مرزاقادیانی میں دعویٰ نبوت موجود تھا۔ جس کی وجہ سے علماء محمدیہ مرزاقادیانی پر فتویٰ لگانے کے لئے مجبور ہوگئے۔
تو اس جگہ پھر دوسرا سوال پیدا ہوجائے گا کہ: ’’جب علماء محمدیہ آپ کے اباجان اور آپ کے علماء قادیانی کو تو اس بات کی پوری پوری سمجھ آگئی کہ مرزاقادیانی کے الہامات اور وحی الٰہی میں یہ دعویٰ نبوت موجود تھا۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی دعویٰ الہام اور وحی کا نہیں تھا۔ صرف دنیاوی علم کے ذریعہ سے وہ اس حد تک پہنچ گئے۔ مگر کیاوجہ ہے کہ جس کو الہام اور وحی کا دعویٰ ہو۔ اس کو نبوت جیسے اہم معاملات کی سمجھ نہ آئے۔‘‘ یہ بات قرین قیاس سے باہر ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی اپنی کتاب (اعجاز احمدی ص۲۶، خزائن ج۱۹ ص۱۳۵) پر اس کے متعلق یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعویٰ کے متعلق اور ان کی تعلیموں کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے۔ جس میں کچھ شک نہیں رہتا۔‘‘
۲… ’’جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے۔ وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہو جاتے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے اور بعض جزئیات میں اجتہاد کی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی۔‘‘
(اعجا زاحمدی ص۲۶، خزائن ج۱۹ ص۱۳۵)