علماء محمدیہ نے ایک نہ مانہ اور مرزاقادیانی پر فتویٰ کفر لگایا۔ اسی واسطے آپ کے علماء قادیانی نے ہمارے علماء محمدیہ کی تعریف بیان کر کے ان کو ’’تعریف‘‘ کے لفظ سے خراج تحسین ادا کیا۔‘‘ اب اس جگہ حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ:
سوال نمبر:۱…جب مرزاقادیانی کے الہامات اور وحی الٰہی میں ۱۸۸۰ء یعنی براہین کے زمانے سے جو دعویٰ نبوت موجود تھا۔ تو مرزاقادیانی نے اسے کیوں چھپائے رکھا اور کیوں اس کا دعویٰ نہ کیا؟
سوال نمبر:۲…تیئس سال جو خدا مرزاقادیانی کو نبی اور رسول کہتا رہا تو مرزاقادیانی کیوں اس کا انکار کرتے رہے؟
سوال نمبر:۳…اتنا طویل عرصہ تک مرزاقادیانی کو اپنے منصب نبوت ورسالت کی کیوں سمجھ نہ آئی؟
سوال نمبر:۴…جب علماء محمدیہ نے اس کو صحیح سمجھ کر مرزاقادیانی پر فتویٰ کفر لگایا تو مرزاقادیانی نے اس کی تاویل کر کے عوام الناس کو کیوں دھوکہ دیا اور کہہ دیا کہ میں مسلمان ہوں۔ میرا دعویٰ نبوت کا کوئی نہیں۔ مجھے کافر کہنے والے خود کافر ہیں؟
سوال نمبر:۵…جب فتویٰ کفر کے سبب مرزاقادیانی کی شہرت سارے جہاں میں ہوگئی تو آپ نے خانہ خدا دہلی میں کھڑے ہوکر کیوں جھوٹی قسم کھائی؟
سوال نمبر:۶…جب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزاقادیانی نے مسلمان علماء کو انتقامی جذبات کے تحت کافر کہنے کے واسطے مسجد خانہ خدا میں خدا اور اس کے رسولؐ کو گواہ کر کے جھوتی قسم کھائی تو اس جھوٹی قسم کھانے کے عذاب کا حقدار کون ہوگا اور مسلمانوں کو ناحق کافر بناکر متفقہ حدیث کے تحت کون کافر بنا؟
سوال نمبر:۷…جب خدابقول آپ کے ابا جان اور آپ کے علماء کے مرزاقادیانی کو نبوت عطاء کرچکا تھا تو کیوں انہوں نے جھوٹ بول کر یہ کہا کہ میں مدعی نبوت نہیں بلکہ میرا دعویٰ محدث کا ہے؟
سوال نمبر:۸…کیا ہمارے علمائے دین علمی لحاظ سے مرزاقادیانی پر سبقت نہیں لے گئے کہ جنہوں نے مرزاقادیانی کی وحی نبوت کو اصلی معنوں میں سمجھا؟
سوال نمبر:۹…جب مرزاقادیای خدا کی پاک وحی کو سمجھ ہی نہیں سکتے تو کیا خداتعالیٰ نے مرزاقادیانی کے انتخاب کے وقت غلطی نہیں کھائی؟