… ’’پس میں اب بھی کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا۔ لیکن جن میں انہی کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر پیدا ہوگئی ہے۔ ان کو کیونکر مؤمن کہہ سکتا ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۵ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۶۹)
۵… ’’ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے۔ جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کافر نہ بن جائے… اب جو انہیں کافر کہا جاتا ہے تو یہ انہی کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے۔ ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی۔ ہم نے کہا کہ دو مسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں۔ اس نے جواب میں لکھا کہ ہم تو تجھے پکا کافر سمجھتے ہیں۔‘‘
(مرزاقادیانی کی آخری تقریر جو میاں فضل حسین صاحب بیرسٹرایٹ لا کے ساتھ گفتگو کے رنگ میں ہوئی) (منقول از تکفیر اہل قبلہ مولوی محمد علی لاہوری ص۳۸)
اور اسی طرح مرزاقادیانی کے ایک اور خط کا ملاحظہ ہو۔ جو کہ انہیں مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۸ء کو بلوچستان سے کسی ایک مرید نے لکھا۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:
۶… ’’جواب میں لکھ دیں کہ چونکہ عام طور پر اس ملک کے ملاں لوگوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ہمیں کافر ٹھہرایا ہے اور فتوے لکھے ہیں اور باقی لوگ ان کے پیرو ہیں۔ پس اگر ایسے لوگ ہوں کہ وہ صفائی ثابت کرنے کے لئے اشتہار دے دیں کہ ہم ان مکفر مولویوں کے پیرو نہیں ہیں تو پھر ان کے ساتھ نماز پڑھنا روا ہے۔ ورنہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے۔ وہ آپ کافر ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھیں۔ یہ تو شرع شریف کی رو سے جائز نہیں۔‘‘ (اخبار بدر ۱۹۰۸ئ)
اس کے بعد سب سے آخر میں مرزاقادیانی کا ایک خط درج کیا جاتا ہے جو کہ مرزاقادیانی نے ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کے نام لکھا جو کہ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۰۶ئ) کے پرچہ میں شائع ہوا۔ ملاحظہ ہو:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
محبی اخویم ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
اور جو خط مولوی محمد علی صاحب کے نام آیا تھا۔ میں نے اس کو سنا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ کیونکر مخالف لوگ ہم پر تہمتیں لگاتے ہیں۔ تکفیر کے معاملہ میں اصل بات یہ ہے کہ پہلے میں ان