باقی نہیںچھوڑا۔ جس کو اس نے اپنے لئے ثابت نہ کیا ہو۔ (فتویٰ کفر ص۷۶،۷۷)
۳… قادیانی کا ختم نبوت تشریعی اور کلی سے مخصوص کرنا اور اپنے آپ کو محدث قرار دے کر اپنے لئے جزیٔ نبوت اور ایک نوع نبوت کو تجویز کرنا اور ایک قسم کا نبی کہلانا صاف مشعر ہے کہ وہ اپنے آپ کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند (جو نئی شریعت نہ لائے بلکہ پیروی شریعت سابقہ کی کرتے اور نبی کہلاتے) نبی سمجھتا ہے۔ یہی امر اس کے ’’قصیدہ الہامیہ‘‘ کے اشعار ذیل سے سمجھ میں آتا ہے۔ (فتویٰ کفر ص۷۳)
شوخ… الغرض جب یہ فتویٰ سارے پنجاب، ہندوستان وغیرممالک میں تقسیم کیاگیا۔ تو مرزاقادیانی کا قافیہ تنگ ہونا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ کسی گلی کوچہ بازار سے گزرنا مرزاقادیانی کے لئے سخت دشوار ہوگیا۔ کیونکہ اس فتویٰ کے ذریعے سے ہر ایک مسلمان کے دل میں مرزاقادیانی کی طرف سے اس قدر نفرت پیدا ہوگئی کہ کوئی مسلمان مرزاقادیانی سے سیدھے منہ بات کرنی بھی مناسب نہ سمجھتا تھا۔ جب مرزاقادیانی نے یہ دیکھا کہ ہر ایک مسلمان جوش وخروش میں میرے خلاف پھرتا نظر آرہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی من چلا کسی اور ہی ناجائز حرکت کا مرتکب ہو جائے تو انہوں نے عوام کی تسلی وتشفی کے لئے مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو دہلی میں حسب ذیل اشتہار شائع کیا کہ:
اشتہار مرزا
’’میں نے سنا ہے کہ شہر دہلی میں علماء یہ مشہور کرتے ہیں کہ میں مدعی نبوت ہوں اور منکر عقائد اہل اسلام ہوں۔ اظہاراً للحق لکھتا ہوں کہ یہ سراسر افتراء ہے۔ بلکہ میں اپنے عقائد میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ رکھتا ہوں اور ختم المرسلین کے بعد مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوکر نبی کریمﷺ پر ختم ہوگئی۔ یہ وہ عقائد ہیں کہ جن کے ماننے سے کافر بھی مؤمن ہوسکتا ہے۔ میں ان عقائد پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰،۲۳۱)
جب اس اشتہار سے عوام الناس کی تسلی وتشفی نہ ہوئی تو مرزاقادیانی نے مسجد خانۂ خدا میں ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو منبر رسول کریمﷺ پر کھڑے ہوکر اپنی پوزیشن کو صاف کرنے کے لئے یوں حلفیہ بیان دیا کہ: ’’اب میں خانۂ خدا دہلی میں (یعنی جامع مسجد دہلی میں) اقرار کرتا ہوں کہ