کہ جو کیفیت اپنے دعوے کی آپ شروع دعوے سے بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ کیفیت نبوت ہے نہ کہ کیفیت محدثیت۔ تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت سے انکار کیا۔‘‘
شوخ… اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک محقق ہر دو تحریرات مذکورہ بالا پڑھنے کے بعد کس کو سچا اور کس کو جھوٹا کہے گا؟ کیونکہ مرزاقادیانی کی تحریر تو ثابت کرتی ہے کہ جو حضورﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کا کرے اس پر اﷲاور تمام لوگوں اور تمام فرشتوں کی لعنت ہو۔
برخلاف اس کے میاں صاحب کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کا کیا۔ اب آپ ہی فرمائیں کہ جب مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت بقول میاں صاحب اظہر من الشمس ہے تو اﷲتعالیٰ کی اور تمام لوگوں اور فرشتوں کی لعنت کا تین لڑیا ہارکس کے گلے میں پڑے گا؟
میاں ناصر احمد! اس ہار کا ڈیزائن آپ کے دادا جان کا تیار کیا ہوا ہے اور آپ کے ابا جان نے اس کو بالترتیب پرو کر تیار کر دیا ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ اس کو باوضو ہوکر جو اس کا حقدار ہو۔ اس کے گلے میں ڈال کر اپنے فرض منصبی کو ادا کریں اور اپنے ’’ربنا عاج‘‘ کے حضور میں سرخرو ہوکر خوش وخرم ہوجائیں۔
سوال نمبر:۱۲…میاں ناصر صاحب! آپ کے دادا جان مرزائے قادیان لکھتے ہیں کہ: ’’ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ تحقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید ومولیٰ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی کوئی شریعت ہے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردود ہے… یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصل طور پر مجھے یہ نام دیا گیا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۴ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
حاصل مطلب یہ کہ حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی مستقل نبی نہیں آسکتا۔ ایسا دعویٰ کرنے والا بے دین اور مردود ہے۔ میں ظلی نبی ہوں۔
اور دوسری جگہ مرزاقادیانی اپنی نسبت یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ملاحظہ ہو: ’’ابتداء سے میرا یہ مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
تیسرے مرزاقادیانی اس کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں۔