ہاں اگر اس امر کی تصدیق خدا کی بجائے کوئی اور آدمی عالم رؤیا میں کرتا تو میاں صاحب اس کا اظہار نہ کرتے تو حق بجانب تھے۔ کیونکہ وہ کوئی یقینی بات نہ تھی۔ مگر خدا کی گواہی کا چھپانا یہ تو بڑا زبردست جرم ہے۔ جس کا ارتکاب میاں صاحب نے کیا اور یا پھر وہ خدا ہی نہیں تھا۔ جس نے عالم رؤیا میں مرزاقادیانی کو نبی کہا۔ اگر فی الحقیقت وہ خدا ہی تھا اور میاں صاحب کو پورے طور پر یقین تھا کہ یہ خدا ہی ہے۔ جو مجھے مرزاقادیانی کی نبوت کا یقین دلا رہا ہے تو انہوں نے اس کا اعلان کیوں نہ کیا۔ جن لوگوں نے مرزاقادیانی کی نبوت پر ایمان لانا تھا۔ بقول میاں صاحب ان کا کفر کی حالت میں مرنے کا گناہ کس کے ذمہ ہے؟
سوال نمبر:۔۹…میاں ناصر احمد! آپ کے ابا جان میاں محمود احمد قادیانی مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے متعلق یوں ارشاد فرمارہے ہیں کہ مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت ۱۸۸۰ء تا۱۸۸۴ئ، ۱۸۹۰ئ، ۱۸۹۱ئ، ۱۹۰۱ئ، ۱۹۰۲ئ، ۱۹۰۳ء وغیرہ میں کیا۔ ازراہ کرام اب آپ ہی بتائیں کہ ان سنین میں سے کون سا سن صحیح ہے کہ جس میں مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کا کیا؟
سوال نمبر:۱۰…میاں ناصر احمد! آپ کے ابا جان ارشاد فرماتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو مولوی عبدالکریم سیالکوٹی نے آیت قرانی کے تحت نبی ورسول بنایا۔ ۱۹۰۰ء میں مرزاقادیانی کو تیئس سالہ وحی الٰہی نے نبی بنایا اور ۱۹۰۳ئ، ۱۹۰۴ء میں مرزاقادیانی کو نبی بنایا اﷲتعالیٰ نے۔
اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ مرزاقادیانی کی نبوت کو مولوی عبدالکریم کی عطا کردہ تصور کرتے ہیں یا اﷲ تعالیٰ کی عطاء کردہ۔ ۱۹۰۰ء میں آپ ان کی نبوت کا آغاز مانیں گے یا کہ ۱۹۰۳ئ،۱۹۰۴ء میں۔ ازراہ کرم اس کا فیصلہ دے کر مشکور فرماویں۔ عین نوازش ہوگی۔
سوال نمبر:۱۱…میاں ناصر صاحب! مرزاقادیانی اپنی کتاب (استفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۱۶، خزائن ج۲۲ ص۶۳۷) پر تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’میں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ میری نبوت سے اﷲتعالیٰ کی مراد سوائے کثرت مکالمہ اور مخاطبہ کے اور کچھ نہیں اور یہ اہل سنت کے نزدیک مسلم ہے۔ پس صرف لفظی نزاع ہے۔ پس اے عقلمندو اور داناء وجلدی نہ کرو اور اﷲتعالیٰ کی لعنت اس شخص پر جو اس کے خلاف ذرہ بھر دعویٰ کرے اور ساتھ ہی تمام لوگوں اور تمام فرشتوں کی لعنت اس پر ہو۔‘‘
مگر آپ کے اباجان میاں محمود احمد بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کے متعلق (حقیقت النبوۃ ص۱۲۴) پر یوں تحریر فرماتے ہیں: ’’لیکن جب آپ کو معلوم ہوا