پیچیدہ سوالات آپ کے سامنے پیش ہوںگے۔ جن کا جواب دے کر آپ نے مرزاقادیانی کی صداقت کو پیش کرنا ہے۔ یہ تو ان سوالات کی ابھی پہلی کڑی ہے۔ آپ لوگوں نے ہم مسلمانوں کا حوصلہ نہیں دیکھا کہ جن کے سامنے حضرت محمد رسول اﷲﷺ، حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ، حضرت امام حسینؓ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مائی مریم علیہا السلام ودیگر پیغمبروں کی دل کھول کر توہین کی گئی اور پینتالیس کروڑ مسلمانوں کو دل کھول کر کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور حرامزادے وغیرہ وغیرہ کہا گیا کہ جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ماسوائے انگریز کو خوش کرنے کے۔ مگر ہم تو جو کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں وہ بحوالہ کلام ہے اور وہ بھی آپ کے ہی بزرگوں کی، اس لئے کہ ہم بالکل بری الذمہ ہیں۔ اس لئے ان کا جواب دیتے وقت آپ کو چہرہ پر ملال نہیں لانا چاہئے۔ بلکہ خندہ پیشانی سے ہماری طرف جواب دے کر اپنی پوزیشن کو صاف کرنا چاہئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ہماری تحریر دشنام دہی میں شامل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ مرزاقادیانی اس کے متعلق اپنی کتاب (ازالہ اوہام) پر اس طرح رقمطراز ہیں: ’’دشنام دہی اور چیز ہے اور امر واقع کا بیان کرنا اور ہے۔ ہر محقق کو حق حاصل ہے کہ وہ مخالف گم گشتہ کے کان تک ہر بات کو پہنچائے۔ پھر سننے والا خواہ اس کو سن کر افروختہ ہوتو ہوا کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹، خزائن ج۳ ص۱۱۲)
سوال نمبر:۴…میاں صاحب! جب بقول آپ کے اباجان کے مرزاقادیانی نبی ہیں اور نبی بھی مستقل جو صاحب شریعت ہوتا ہے اور جس کے نہ ماننے والا کافرہو جاتا ہے تو پھر آپ اپنا قبلہ،دین، اپنی شریعت، کلمہ وغیرہ وغیرہ ہم مسلمانوں سے کیوں علیحدہ نہیں کرتے۔ کیونکہ مرزاقادیانی (تریاق القلوب ص۱۳۰) پر اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور بعض احکام کو منسوخ کریں۔ بعض نئے احکام لاویں۔‘‘
اور جو نئے احکامات مرزاقادیانی کے رب نے ’’ربنا عاج‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۵،۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۲،۶۶۳) ان کو دئیے ہیں۔ ان کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔ ان کو کیوں چھپائے ہوئے بیٹھے ہو؟
سوال نمبر:۵…میاں صاحب! سب سے زیادہ غور طلب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف تو مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: ’’مجھے اﷲ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نبی ہوں۔ میں اپنے بیان پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں۔ جس قدر حروف قرآن مجید ہیں اور کمالات