خطبہ اسی سال کے الحکم میں چھپ چکا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پورا فیصلہ اس عقیدہ کا ۱۹۰۱ء میں ہوا۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۴۱ئ، خطبہ جمعتہ تقریر میاں صاحب)
سوال… میاں صاحب! جب حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے مقدمہ میں آپ بطور گواہ صفائی بعدالت دیوان سکھانند مجسٹریٹ درجہ اوّل ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب انڈیا ۱۹۳۵ء میں پیش ہوئے اور آپ نے جو حلفیہ بیان بروئے عدالت دیا تھا۔ یاد ہو تو ارشاد فرمائیں کہ کس سن میں آپ کے ابا جان نے دعویٰ نبوت کیا۔
جواب… ’’۱۸۹۰ء کا اخیر یا ۱۸۹۱ء کا شروع۔‘‘
سوال… اچھا میاں صاحب! جو بیان حلفیہ تحقیقاتی عدالت میں آپ نے لاہور ہائی کورٹ پنجاب کے چیف جج مسٹر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس کیانی صاحب کے روبرو ۱۳تا۱۵؍جنوری ۱۹۵۴ء کو دیا۔ اس میں آپ نے اپنے والد مرزاقادیانی کے پہلی مرتبہ دعویٰ نبوت کرنے کے متعلق جوکچھ کہا وہ بھی بیان کیجئے مہربانی ہوگی۔
جواب… ’’جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے ۱۸۹۱ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔‘‘
(بیان میاں محمود، مورخہ ۱۳تا۱۵؍جنوری ۱۹۵۴ئ)
سوال… میاںصاحب! مرزاقادیانی کو اﷲتعالیٰ نے سب سے پہلے کب نبی کہا؟
جواب… ’’جناب مرزاصاحب کو اﷲتعالیٰ نے ۱۸۸۰ء تا۱۸۸۴ء یعنی براہین احمدیہ کے زمانہ میں نبی کہا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۴۴)
سوال… اگر مرزاقادیانی کو نبی نہ مانا جائے تو پھر؟
جواب… ’’اگر آپ کو نبی نہ مانا جائے تو وہ نقص پیدا ہوتا ہے جو انسان کو کافر بنانے کے لئے کافی ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۰۴)
سوال… مرزاقادیانی تو (تریاق القلوب ص۱۰۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ابتداء سے میرا یہ مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا۔‘‘ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ جو مرزاقادیانی کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو مجازی نبی کہتے ہیں۔
جواب… ’’حضرت مسیح موعود کو شریعت کی رو سے مجازی نبی قرار دینے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۸۰)