کرتے رہے اور گو ان ساری باتوں کا دعویٰ کرتے رہے۔ جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے۔ بلکہ محدث کی شرائط سمجھتے تھے۔ اس لئے آپ اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا کسی اور میں نہیں پائی جاتی اور نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔ لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعویٰ کی آپ شروع دعویٰ سے بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ کیفیت نبوت ہے۔ نہ کہ کیفیت محدثیت۔ تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا۔ اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت سے انکار کیا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۴)
سوال… میاں صاحب! جب مرزاقادیانی پر اپنی نبوت کا انکشاف ہوا تو وہ زمانہ کون سا تھا؟
جواب… ’’غرضیکہ مذکورہ بالا حوالہ سے صاف ثابت ہے کہ تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست ۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی۔ آپ کا یہی عقیدہ تھا۔ پس ۱۹۰۲ء سے پہلے کسی تحریر سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہوسکتا۔‘‘ (القول الفصل ص۲۴)
سوال… مگر مرزاقادیانی کو یہ کیفیت کس طرح معلوم ہوئی کہ میں نبی اﷲ ہوں اور کس چیز نے ان کی پہلی توجہ کو یکدم پھیر دیا کہ انہوں نے نبی اﷲ ہونے کا اعلان کیا۔
جواب… ’’باربار کی وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا کہ تیئس سال سے جو مجھ کو نبی کہا جارہا ہے تو یہ محدث کا دوسرا نام نہیں۔ بلکہ اس سے نبی ہی مراد ہے اور یہ زمانہ تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ تھا۔‘‘ (یعنی ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء وغیرہ کا۔ ناقل)
(اخبار الفضل مورخہ ۶؍ستمبر۱۹۴۱ئ، خطبہ جمعہ تقریر میاں صاحب)
سوال… میاں صاحب! مرزاقادیانی نے اپنے عقیدہ نبوت میں کس وقت تبدیلی شروع کی؟جواب… ’’اس عقیدہ کے بدلنے کا پہلا ثبوت اشتہار ایک غلطی کا ازالہ سے معلوم ہوتا ہے جو پہلا تحریری ثبوت ہے۔ ورنہ مولوی عبدالکریم صاحب کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۰ء سے اس خیال کا اظہار شروع ہوگیا تھا۔ گو پورے زور اور صفائی سے نہ تھا۔ چنانچہ اس سال سے مولوی صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت مسیح موعود کو مرسل الٰہی ثابت کیا اور ’’لا نفرق بین احد من رسول‘‘ والی آیت کا آپ پر چسپاں کیا اور حضرت مسیح موعود نے اس خطبہ کو پسند فرمایا اور یہ