سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کے کمالات متعدیہ کے اظہار اور اثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات ومخاطبات الٰہیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے۔ سو اس طور سے خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصل طور پر مجھے یہ نام دیاگیا۔ تا میں آنحضرتﷺ کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۵ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
نوٹ: یہ وہ کتاب ہے جو کہ مرزاقادیانی کی زندگی ختم ہونے سے صرف تین دن پہلے چھپی اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاقادیانی کا انتقال ہوگیا۔
جواب… ’’لیکن یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے بعض اوقات خداتعالیٰ کے الہامات میں ایسے الفاظ استعارہ اور مجاز کے طور پر اس کے بعض اولیاء کی نسبت استعمال ہوجاتے ہیں اور وہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتے۔ سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں۔ آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبویﷺ سے نبی اﷲ نکلا ہے۔ وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے۔ جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے۔ ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً حاشیہ)
’’واﷲ مکالمات ومخاطبات… الخ! یعنی اﷲتعالیٰ اس امت کے لئے اولیاء کو اپنے مکالمات ومخاطبات کا شرف عطا کرتا ہے اور ان اولیاء کو نبیوں کا رنگ تو دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ فی الحقیقت نبی نہیں ہوتے۔ کیونکہ قران کریم نے شریعت کی حاجت کو مکمل کر دیا ہے۔ ان اولیاء کو صرف فہم قرآن عطاء کیا جاتا ہے۔‘‘ (مواہب الرحمن ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۲۸۵)
سوال… مرزاقادیانی! نبوت کے متعلق تو آپ نے بڑا کچھ بیان کیا۔ مگر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اسلامی اصطلاح میں نبوت کی تعریف کیا ہے؟
جواب… ’’نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت لغت عرب میں بھیجنے والے کو کہتے ہیں اور نبوت یہ ہے کہ خدا سے علم پاکر پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا، سو اسی حد تک مفہوم کو ذہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلامی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض