کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اس امت میں پہلی امتوں کی طرح محدث پیدا ہوںگے اور محدث بفتح وال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات ومخاطبات الٰہیہ ہوتے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۴۸، خزائن ج۱ ص۶۵۵ حاشیہ)
’’اس امت مرحومہ میں سلسلہ خلافت دائمی اسی طور پر اور اسی کی مانند قائم کیاگیا۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں قائم کیاگیا تھا اور صرف اس قدر لفظی فرق رہا کہ پہلے انبیاء آتے تھے اب محدث آتے ہیں۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۶۰، خزائن ج۶ ص۳۵۶)
’’چونکہ ہمارے سید ورسولﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرتﷺ کے کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۲۷، خزائن ج۶ ص۳۲۳)
سوال… مرزاقادیانی! آپ کے بیانات سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ البتہ حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق اس امت کی اصلاح کے لئے وقتاً فوقتاً محدث آئیں گے۔ مگر آپ نے ابھی تک یہ ظاہر نہیں کیا کہ آپ نے اپنی تحریرات میںجو اپنی نسبت لفظ نبی کا استعمال کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ جو کہ بنائے فتویٰ کفر ہے۔ اس کی بھی وضاحت کیجئے۔ تاکہ آپ کے مؤقف کا پتہ چل جائے اور ایک محقق کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔
جواب… ’’یعنی مکفرین کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ میں انبیاء میں سے ہوں۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اے بھائی معلوم رہے۔ میں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں۔ لیکن ان لوگوں نے جلدی کی اور میرے قول کے سمجھنے میں غلطی کی۔ ’’من الاعتراضات المکفرین۰ فاعلم یا اخی ما ادعیت النبوۃ‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)
سوال… تو ایسا آپ کا قول کون سا تھا۔ جس کو وہ سمجھ نہ سکے اور آپ پر فوراً فتویٰ کفر لگادیا۔ ذرا اس سے بھی آگاہ کریں کہ آپ کا دعویٰ کیا تھا؟
جواب… نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ تھا جو خدا کے حکم سے کیاگیا۔
(ازالہ اوہام ص۴۲۱، خزائن ج۳ ص۳۲۰)