٭… کیا مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱) پر یہ نہیں لکھا کہ: ’’میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔‘‘ کسی غیرمسلم اور جابر سلطنت کا کوئی نبی، مسیح یا مہدی خودکاشتہ پودا ہوسکتا ہے۔
٭… کیا مرزاقادیانی نے اپنی کتاب براہین احمدیہ پر یہ نہیں لکھا کہ: ’’۱۴؍ویں صدی آخری ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۸، خزائن ج۲۱ ص۳۵۹)
کیا آج چودھویں صدی کو ختم ہوئے سات سال نہیں گذر چکے؟ کیا اب پندرھویں صدی کا سورج جب ہرروز چڑھتا ہے تو اس سے مرزاقادیانی کی پیشین گوئی کے کذب اور افتراء کا اظہار نہیں ہوتا؟
٭… مورخہ ۵؍جون ۱۸۹۳ء میں مرزاقادیانی کا ایک عیسائی ڈپٹی عبداﷲ آتھم سے امرتسر (انڈیا) میں مناظرہ ہوا۔ پندرہ روز تک کوئی نتیجہ نہ نکلا تو مرزاقادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا۔ جس کا مضمون حسب ذیل تھا۔
’’اﷲ نے معجزہ کے ذریعے بتلایا ہے کہ یہ کذاب پندرہ ماہ میں مر جائے گا اور میری یہ بات سچ نہ ہو تو میں سزا کے قابل ہوں۔ میرا چہرہ سیاہ پڑ جائے۔ میں رسوا ہو جاؤں۔ میرے لئے سولی تیار رکھو۔ میری گردن میں رسی ڈال کر گلا گھونٹ دیا جائے۔ میں اﷲ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو میں نے کہا ضرور واقع ہوگا۔ زمین وآسمان اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ مگر پیش گوئی کے خلاف نہ ہوگا۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
کیا اس وحی کا انجام یہ نہیں ہوا جو بطور اعتراف ایک شخص یعقوب قادیانی نے یوں (سیرۃ المسیح موعود ص۷) پر نقل کیا ہے۔
’’پندرہ ماہ گذرنے کے بعد جب آخری دن ہوا تو قادیانیوں کے چہرے سیاہ پڑ گئے۔ دل پریشان تھے۔ حسرت ویاس غالب تھی۔ لوگ رو رو کر چیخ وپکار کے ساتھ اﷲ سے دعائیں کر رہے تھے۔ چیخ وواویلا اس حد تک پہنچا کہ مخالفین بھی سہم گئے۔‘‘
لیکن آخری روز گذرنے کے بعد جب مرنے کی کوئی خبر نہ آئی تو مرزاقادیانی نے حسب عادت ایک جھوٹ اور تراشا کہ عبداﷲ آتھم نے عیسائیت سے توبہ کر لی ہے۔ لیکن چند روز بعد ہی مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء کے اخبار وفادار لاہور میں عبداﷲ آتھم کا یہ بیان شائع ہوا: ’’میں