کی درازی عمر کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کو اپنی زمین اور مملوکات کا ایک تہائی حصہ دوں گا اور میں سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ آپ مانگیں میں آپ کو دوں گا۔‘‘
(کلمہ فضل رحمانی بحوالہ قادیانی مذہب)
قارئین کرام! ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ کس طرح ایک لڑکی کے عشق میں خدا پر جھوٹ باندھنے لگے۔ کیا کسی لڑکی سے شادی کے لئے کسی نبی کا یہ انداز ہوسکتا ہے؟
باالآخر مورخہ ۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو محمدی بیگم کا نکاح ان کے والد نے مرزاسلطان محمد سے کر دیا۔ مگر مرزاقادیانی اس نکاح کے بعد بھی پیش گوئی کی تکمیل سے مایوس نہ ہوئے۔ انہوں نے ضلع گورداسپور کی عدالت ۱۹۰۱ء میں حلفیہ طور پر یہ بیان دیا: ’’وہ عورت اب تک زندہ ہے۔ میرے نکاح میں وہ ضرور آئے گی۔ یقین کامل ہے کہ خدا کی باتیں ٹلتی نہیں۔ ہوکر رہیں گی۔‘‘
(اخبار الحکم ماہ اگست ۱۹۰۱ئ)
مرزاقادیانی کا کذب سورج سے زیادہ روشن ہوتا گیا۔ من گھڑت دعوؤں کی قلعی کھلتی گئی۔ حتیٰ کہ خود مرزاقادیانی نے کچھ عرصہ بعد (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) پر یہاں تک لکھ دیا کہ: ’’یاد رکھو اس پیش گوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔ وہی رب ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
حالات نے ثابت کر دیا کہ محمدی بیگم مرزاقادیانی کی وفات یعنی ۱۹۰۸ء تک ان کے نکاح میں نہیں آئی۔ کیا اس طرح مرزاقادیانی بد سے بدتر ثابت نہ ہوئے۔
مرزاقادیانی کی بازاری زبان
مرزاغلام احمد قادیانی (العیاذ باﷲ) اگر اﷲ کے سچے رسول، نبی یا مسیح موعود تھے تو کیا کسی نبی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کے لئے بازاری زبان استعمال کرے۔ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء جن میں بعض کو ان کی قوموں نے ذبح کرنے، جلاوطن کرنے اور ہر قسم کے مصائب کا سزاوار بنایا۔ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے مخالفوں کے لئے درج ذیل ایسے کلمات استعمال کئے جو مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (آئینہ کمالات اسلام) پر درج کئے ہیں: ’’کل مسلمانوں نے میری دعوت کو قبول کر لیا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کی ہے۔ مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے نہیں مانا۔‘‘