خاموشی رہی۔ افسوس ہے کہ ذلت ورسوائی کے بعد مرزاقادیانی کو نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے اور سادہ لوح اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ پڑھے لکھے لوگوں کو اسے نبی تسلیم کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تھی۔
محمدی بیگم سے نکاح
مرزاقادیانی کے عجیب وغریب دعوے
۱۸۸۸ء میں جب کہ مرزاقادیانی کی عمر پچاس سال تھی۔ اپنے ایک رشتہ دار مرزااحمد بیگ کو ان کی نو عمر صاحبزادی محمدی بیگم کے نکاح کا پیغام دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک اشتہار مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء کو شائع کیا۔ جس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’اس خدائے قادر، حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے کوشش کر اور ان کو کہہ دے کہ یہ نکاح تمہارے لئے موجب رحمت ہوگا۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام بہت ہی برا ہوگا۔ کسی بھی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی تو وہ روز نکاح سے ڈھائی سال بعد اور اس (لڑکی) کا والد تین سال بعد فوت ہو جائے گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶، خزائن ج۵ ص ایضاً)
مرزاغلام احمد قادیانی ازالہ اوہام میں رقمطراز ہیں: ’’خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ احمد بیگ کی دختر کلاں تمہارے نکاح میں ضرور آئے گی۔ لوگ بہت عداوت کریں گے۔ لیکن بالآخر اﷲتعالیٰ ہر طرح اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے ہر ایک روک درمیان سے اٹھا دے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵)
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر اس نکاح کو اپنے حق اور باطل ہونے کا معیار بتایا: ’’واضح ہو کہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘
پیش گوئی کے چار سال بعد تک بھی جب محمدی بیگم کے والد احمد بیگ بے حد دباؤ کے باوجود نکاح پر آمادہ نہ ہوئے تو پھر مرزاقادیانی منت سماجت اور حرص وطمع کر کے حربے استعمال کرنے لگے۔ احمد بیگ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر آپ نے میرا قول اور بیان مان لیا تو مجھ پر مہربانی اور احسان کے ساتھ ساتھ نیکی بھی ہوگی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور آپ کی