نیز اپنی کتاب (نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳) پر گوہر افشاں ہیں۔ ’’بلاشبہ ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔‘‘
کیا مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے ایک رسالہ (ہمارا مؤقف ص۱تا۵) میں یہ نہیں لکھا کہ: ’’میں امتی ہوں۔ خاتم النبیین کا خادم ہوں۔‘‘ پھر اپنی ہی کتاب (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷) پر اپنے ہی اس دعوے کی دھجیاں بکھیر کر دجل وتلبیس کی شاہراہ پر گامزن رہتے ہوئے لکھا: ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام محمد رکھا۔‘‘
کیا مرزاقادیانی نے اپنی ایک کتاب (ازالہ اوہام ص۵۷۷، خزائن ج۳ ص۴۱۲) پر یہ نہیں تحریر کیا ہے کہ: ’’اب جبرائیل امین کو بعد وفات رسول اﷲ ہمیشہ کے لئے وحی لانے سے منع کیاگیا ہے۔ کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبیﷺ کے بعد ہر گز نہیں آسکتا۔‘‘
اور پھر خود ہی اس دعوے کا خون اس طرح کیا: ’’حق یہ ہے کہ خدا کی وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوئی ہے۔ اس میں میرے لئے ایسے لفظ رسول،مرسل اور نبی موجود ہیں۔ نہ ایک بلکہ تین ہزار دفعہ۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۲، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
کوئی سچا نبی تو کیا ایک معقول انسان بھی اس قسم کی تضاد بیانی اور منافقت سے کام لے سکتا ہے؟
بموجب آیت ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ اگر مرزاقادیانی سچے نبی ہوتے تو لازم ہے کہ مرزاقادیانی پر بھی وحی ان کی اپنی قوم کی زبان میں آتی جو پنجابی تھی۔ لیکن ان پر متعدد زبانوں میں نازل ہوئی اور ان کا مجموعہ وحی ’’تذکرہ‘‘ کئی زبانوں کا معجون مرکب کیسے بن گیا؟ یہ تو ایک قرآنی آیت کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
کیا مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص ایضاً، جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی) پر یہ نہیں تحریر کیا کہ: ’’جو شخص محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ مسیلمہ کذاب کی مثل، کافر اور خبیث ہے۔‘‘
اور آپ کے اسی مرزاقادیانی نے ۱۸۹۹ء میں کتاب (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳) پر یہ نہیں لکھا: ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسی نے میرا نام نبی رکھا۔‘‘