خاتمے کی بجائے اس کے کذب وافتراء کو آشکارا کیا جاتا۔
اس پیشین گوئی کے نتیجے کے بارے میں خود مرزاقادیانی کے ہی صاحبزادے مرزابشیراحمد کی زبان سے اعتراف ملاحظہ فرمائیں: ’’جب عبداﷲ آتھم کی مدت میں ایک روز باقی رہ گیا تو مجھے اور حامد علی کو حضرت مسیح موعود نے مسور کے دانوں پر فلاں فلاں سورۃ پڑھ کر دم کرنے کا حکم دیا۔‘‘ ہم نے شب بھر میں وظیفہ کامل کیا۔ صبح کو ہمیں ساتھ لے کر قادیان سے باہر شمالی گوشہ میں چلے اور کہا: ’’یہ (مسور کے دانے) میں اس ویران کنویں میں ڈالوں گا اور تم خود اگر تیزی کے ساتھ یہاں سے بھاگ نکلنا۔‘‘
ہم نے ایسا ہی کیا، پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۷۸، روایت۱۶۰)
ڈھکوسلہ آخر ڈھکوسلہ ہی ہوتا ہے۔ اپنوں کو مطمئن کرنے کے لئے مرزاقادیانی نے کیا کیا حربے استعمال کئے۔ ایک اور قادیانی محمد یعقوب کی زبانی سنئے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے داماد نے لکھا: ’’مولانائے مکرم آپ کو پیشین گوئی کے الفاظ یاد ہیں۔ آج آخری دن ہے۔ عبداﷲ آتھم کی مدت پوری ہورہی ہے۔‘‘ (سیرت المسیح الموعود ص۷)
مرزاقادیانی کی تاویل یا کذب ملاحظہ فرمائیے اور سردھنئے۔ کیا اس وحی کا انجام یہ نہیں ہوا۔ جو بصورت اعتراف ایک شخص یعقوب قادیانی نے یوں (سیرۃ المسیح الموعود ص۷) پر نقل کیا ہے۔
’’۱۵ماہ گذرنے کے بعد جب آخری دن ہوا۔ قادیانیوں کے چہرے سیاہ پڑ گئے۔ دل پریشان تھے۔ حسرت ویاس غالب تھی۔ لوگ رورو کر چیخ وپکار کے ساتھ اﷲ سے دعائیں کر رہے تھے۔ چیخ ووایلا اس حد تک پہنچا کہ مخالفین بھی سہم گئے۔‘‘ لیکن آخری روز گذرنے کے بعد جب عبداﷲ آتھم کے مرنے کی کوئی خبر نہ آئی تو مرزاقادیانی نے حسب عادت ایک جھوٹ اور تراشا کہ عبداﷲ آتھم نے عیسائیت سے توبہ کر لی ہے۔ لیکن چند روز بعد ہی مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء کے اخبار وفادار لاہور میں عبداﷲ آتھم کا درج ذیل بیان شائع ہوا۔
’’میں غلام احمد قادیانی کی پیش گوئی کا منتظر ہوں… صحیح سالم ہوں اور مسیحیت پر قائم ہوں۔ میری عمر ۶۸سال سے زیادہ ہے۔ اس (مرزاقادیانی) کو خدا نے جھوٹا کیا۔‘‘
اب بتائیے کہ کیا سچے نبی اور رسول کے دعوؤں اور پیشین گوئیوں کا یہی انجام ہوتا ہے؟
اس اعلان کے بعد قادیانیوں کے چہرے سیاہ پڑ گئے اور ایک طویل عرصہ تک