مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی… اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خداکے مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ جھوٹے ہونے کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں۔ بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ یعنی طاعون اور ہیضہ وغیرہ جیسی مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
ملاحظہ ہو کہ مرزاقادیانی تو اس اشتہار کے ایک سال بعد ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہیضہ کی بیماری میں مبتلا ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ اس پیش گوئی کے ۴۰سال بعد مورخہ ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء سرگودھا میں فوت ہوئے۔ (قادیانیت ص۲۹)
عبداﷲ آتھم عیسائی کے ساتھ مناظرہ اور رسوائی ۱۸۹۳ء میں بمقام امرتسر (متحدہ ہندوستان) عبداﷲ آتھم نامی ایک عیسائی کے ساتھ مرزاغلام احمد قادیانی کا مناظرہ ہوا۔ کئی دنوں کے مناظرہ کے بعد بھی جب مرزاقادیانی کامیاب نہ ہوسکے تو ایک اشتہار کے ذریعے یہ اعلان کیا۔
’’عبداﷲ آتھم پادری پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ میں نے اﷲتعالیٰ سے خوب گریہ زاری اور تضرع سے التجاء کی ہے کہ وہ فیصلہ فرمائیں تو انہوں نے مجھے یہ معجزہ عطا فرمایا ہے کہ کذاب (عبداﷲ آتھم) مورخہ ۵؍جون ۱۸۹۳ء سے پہلے پندرہ ماہ میں نہ مرے اور میری بات سچ نہ ہو تو میں ہر سزا کے قابل ہوں۔ میرا چہرہ سیاہ پڑ جائے۔ میں رسوا ہو جاؤں۔ میری گردن رسی ڈال کر گلا گھونٹ دیا جائے۔ میں اﷲ عظیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو میں نے کہا ہے ضرور واقع ہو کر رہے گا۔ زمین وآسمان اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ مگر میری پیشگوئی کے خلاف نہ ہوگا۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۱۰،۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۲،۲۹۳)
ملاحظہ ہو کہ اس بلند بانگ پیشین گوئی سے پورا ہندوستان دہل گیا۔ بڑے پراثر اور خود اعتمادی کے ساتھ کئے جانے والے اس دعوے کا جو نتیجہ نکلا وہ اس قدر حیرت انگیز ہے کہ اگر قادیانیوں کے دلوں پر مہر نہ لگ گئی ہوتی اور ہدایت وفلاح کے دروازے مکمل طور پر ان کے لئے بند نہ ہو گئے ہوتے تو چلو اسی وقت خود انہی کے الفاظ کے مطابق رسی ڈال کر انہیں گھسیٹانہ ہی جاتا۔ لیکن ایسے جھوٹے مدعی سے پہلو تہی کر لی جاتی۔ اس کے من گھڑت دعوؤں کو تاویل وتعبیر کے