دجل وتلبیس کا پردہ چاک کیا تو خود وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹوؒ بھی ورطۂ حیرت میں رہ گئے۔ بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس ۹۰سالہ مسئلہ کو حل کر کے قادیانی جماعت کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر ایک تاریخ ساز فیصلہ سرانجام دیا۔
امتناع قادیانیت آرڈیننس ۱۹۸۴ء قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دئیے جانے کے بعد بیوروکریٹس کی اندرونی سازشوں کے باعث اس قانون پر عمل درآمد نہ ہوا۔ ۱۹۸۴ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحقؒ نے ایک تحریک کے نتیجے میں مندرجہ ذیل آرڈیننس جاری کیا۔
٭…
قادیانی جماعت آئندہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔
٭…
قادیانی اپنی عبادت گاہوں کو مسجد قرار نہیں دے سکتے۔
٭…
کوئی قادیانی اپنے مذہب کی کسی ذریعے سے بھی تبلیغ نہیں کر سکے گا۔
٭…
قادیانی اپنی عبادت گاہوں میں اذان نہیں دے سکتے۔
یہ آرڈیننس جاری ہونا تھا کہ قادیانیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس قانون سے ایک طرف سادہ لوح مسلمانون کو ان کے کفر وارتداد کا علم ہوا تو دوسری طرف قادیانیوں نے پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے کوئی کسی کو کیسے روک سکتا ہے۔ ایک عیسائی، یہودی اگر حضور اکرمﷺ کا کلمہ پڑھنا چاہے تو آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ ایسی شدت اور گھناؤنے انداز میں کیاگیا کہ ایک اعلیٰ سطحی انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کے ساتھ ہی قادیانیوں نے پاکستان کی شرعی عدالت میں حکومت پاکستان کے اس آرڈیننس کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ جس میں قادیانیوں کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی انسان کو حضورﷺ کا کلمہ طیبہ پڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ دنیا بھر کے دانشور حلقے متوجہ ہوگئے۔ لیکن علماء حق کی نمائندہ تنظیم ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی فراہم کردہ معلومات اور قادیانیوں کے دلائل سننے کے بعد شرعی عدالت نے جو فیصلہ تحریر کیا تھا وہ یہ تھا۔
پاکستان کی شرعی عدالت کا فیصلہ
۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو موجودہ حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔ قادیانیوں کے ان مذموم عقائد اور سرگرمیوں کی بیخ کنی کر دی جو ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں کی دل آزاری کا