ختم نبوت کی دو تحریکیں
۱۹۲۹ء کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، پیر سید فیض الحسنؒ اور مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ نے مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے مرزاقادیانی گروہ کے خلاف اپنی دینی ذمہ داری کو پورا کیا۔
۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کے بعد جب قادیانیوں کے ایک سرکردہ لیڈر مسٹر ظفر اﷲ خان کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو اس نے نہایت چال بازی سے پوری دنیا کے سفارت خانوں میں قادیانی بھرتی کرنے شروع کر دئیے اور اس طرح اس فتنہ کے جراثیم دنیا بھر میں پھیلنے شروع ہوئے۔
ہر موقع پر دینی تعلیم سے نادانی ہی نے یہ گل کھلایا ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو جو شخص بھی اپنی سحر کاری اور شعبدہ بازی سے جس طرح بھی ورغلانا چاہے اسے چنداں تکلیف نہیں ہوئی۔ بعینہ اسی طرح مرزاقادیانی کے پیروکاروں نے مہدویت سے لے کر مسیحیت اور مستقل نبوت تک گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اپنے مقتداء کو اپنی کتابوں اور پمفلٹوں کے ذریعے متعارف کرانا شروع کیا کہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کے جال میں آگئے۔ اس سلسلہ میں ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں قادیانی وزیرخارجہ کے خلاف بے مثال، پہلی عوامی تحریک چلی۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں نے شرکت کی۔ کم وبیش دس ہزار مسلمانوں نے اس تحریک میں جام شہادت نوش کیا۔
اس تحریک کے بعد حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے حکم پر تمام مسلمانوں کی مشترکہ تنظیم ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ عمل میں آئی۔ جس کی کوششوں سے علامہ محمد یوسف بنوریؒ اور مولانا تاج محمودؒ کی قیادت میں ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں قادیانی جماعت کے غیرمسلم اقلیت قرار دئیے جانے کا مسئلہ پیش ہوا۔ اس کے بعد فاضل ممبران کے سامنے قادیانی سربراہ مرزاناصر کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے جنرل سیکرٹری اور صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمودؒ نے ملت اسلامیہ کا مؤقف پیش کیا۔
پارلیمنٹ میں اکثریت ان مسلمانوں کی تھی جو انگریزی تعلیم میں تو کئی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے فاضل تھے۔ لیکن دینی تعلیم کی ابجد سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے قادیانیوں کے ساتھ مسلمانوں کے اختلافات کو بریلوی، دیوبندی اختلافات کی مانند سمجھتے تھے۔ لیکن جب مفتی محمودؒ نے قرآن وحدیث کے مستند حوالوں اور مرزاقادیانی کی کتابوں سے ان کے کفر وزندقہ اور