پھر ایک جماعت جو قرآن وحدیث کے اسرار ورموز، حقائق ومعارف اور مسائل واحکام کی تہذیب پر جمع ہوئی۔ ان کی کاوش ائمہ صحابہ کرامؓ سے لے کر امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کے ذریعے کئی ائمہ سے ہوکر امام الہند حضرت شاہ ولی اﷲؒ کے ذریعے دنیا تک پہنچی۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں علم کلام، علم فلسفہ، علم ادب وانشاء میں ایسے ایسے عظیم مصلح پیدا ہوئے جو آسمان علم وفضل کے گوہر تابدار بھی تھے۔ چمنستان ولایت کے آفتاب بھی تھے۔ ان میں امام غزالیؒ، امام ابن تیمیہؒ، امام رازیؒ، امام مجدد الف ثانیؒ، امام قاسم نانوتویؒ، شیخ الہند محمود الحسنؒ اور اپنے اپنے عہد میں بڑی بڑی کئی عہد ساز شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ اسلام کے یہ تمام اکابرین اور علماء محنت وکاوش، سعی پیہم، جہد مسلسل، عرق ریزی اور محنت شاقہ کے باوجود اپنے کسب وفعل سے نبی نہ بن سکے۔ صرف وراثت نبوت کے حامل ہوکر آنحضرتﷺ کی عالمگیر نبوت اور رسالت کا پیغام سناتے رہے۔ اکابرین اسلام کا وجود اور ان کے عہد ساز کارنامے دراصل آپؐ کی ہمہ گیری اور آفاقیت کی بہت بڑی دلیل ہیں۔ گردش زمانہ کی رنگ برنگ محفلوں میں کئی لوگوں نے جھوٹے طور پر دعویٰ نبوت بھی کیا۔ لیکن اپنے اپنے عہد میں ہر ایک وارث پیغمبر، عالم دین اور امام نے اس کی دھجیاں بکھیر کر اس کے دجل وفریب کا پردہ چاک کیا۔ اس کی تحریف اور تلبیس سے امت مسلمہ نے ملت اسلامیہ کو آگاہ کیا۔
مرزاقادیانی کے خلاف ہندوستان کے علماء کی پہلی جدوجہد
برصغیر پاک وہند میں انگریز کے عہد غلامی میں انگریز ہی کی سرپرستی میں امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسلامی جہاد کی منسوخی کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی جھوٹا مدعی نبوت بن کر نمودار ہوا تو علماء حق نے وراثت نبوت کے عین مطابق مرزاقادیانی کا تعاقب کیا۔ علماء حق کے جملہ مکاتب فکر جو چند فروعی مسائل میں باہم اختلاف بھی رکھتے تھے۔ لیکن جب ان کے سامنے آنحضرتﷺ کی عزت وناموس اور ختم نبوت کا مسئلہ پیش ہوا تو سب کے سب علماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا عبدالقادر لدھیانویؒکے صاحبزادے مولانا عبدالعزیز لدھیانوی، مولانا محمد عبداﷲ اور مولانا محمد لدھیانوی پاک وہند کے مشہور بزرگ حضرت سید مہر علی شاہ گولڑویؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، سید نذیر حسین دہلویؒ اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ مرزاقادیانی کے خلاف برسر پیکار ہوئے۔