عرض مؤلف
اس کتاب کی ضرورت
۲۷؍جولائی ۱۹۸۶ء کو ویمبلے سنٹر لندن میں منعقد ہونے والی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شریک ہونے کے بعد راقم کو پورے برطانیہ کے تفصیلی دورے کا موقع ملا۔ یہاں آکر محسوس ہوا کہ یہاں کے مسلمان بے شمار مسائل کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ Freedum (آزادی) ہے۔ اس ہیجان کی کالی کالی گھٹاؤں میں اسلامیت کا تشخص حرف غلط کی طرح مٹتا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل نہ صرف یہ کہ اپنے اسلامی تمدن وثقافت کو بھولتی جارہی ہے۔ بلکہ اب تو اسے اسلام کی ابتدائی اصطلاحات سے بھی یک گونہ بعد ہوچکا ہے۔ تبلیغی جماعت اور علماء حق کے مدارس عربیہ اور مراکز اسلامیہ کے ذریعے روشنی کی جو کرنیں فروزاں ہیں۔ ان پر شب خون مارنے کے لئے گھر گھر میں ویڈیو فلمیں، بلیوپرنٹ، سرراہ حیا اور غیرت کا ننگا ناچ، اس پر مستزاد ہے۔ نئی مسلمان نسل کی اسلام سے بیگانگی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی وہ جماعت ہے جس کا بیج ایک ڈیڑھ صدی قبل خود انگریز ہی نے برصغیر میں بویا تھا اور اس کے ذریعے فرنگی سامراج نے اسلامی جہاد کی منسوخی سے لے کر امت مسلمہ میں تفرق وتشتت کی صورت میں بہت بڑا کریڈٹ حاصل کیا تھا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے حواریوں کی یہی قادیانی جماعت ہے۔
قادیانی گروہ کے مکروہ چہرے سے پورے عالم اسلام میں پردہ اٹھ چکا ہے اور اسلام کے نام سے اسلام دشمنی کرنے والے اس گروہ کی سنڈاس سے ایک عالم متعفن ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، شام، متحدہ عرب امارات، مصر اور تمام اسلامی ممالک میں اس جماعت کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ اہل اسلام کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی تنظیموں کی طرف سے یہ بات اب روز روشن کی طرح واضح کر دی گئی ہے کہ قادیانیوں کا مذہبی، معاشرتی، تمدنی اور روحانی طور پر آنحضرتﷺ اور آپؐ کے دین اسلام سے قطعی کوئی رشتہ نہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار جو کلمہ پڑھتے ہیں۔ اس میں ’’’محمد رسول اﷲ‘‘ کے لفظ سے مراد خود مرزاقادیانی ہے اور یہ لوگ دھوکہ کے طور پر امت مسلمہ کو آنحضرتﷺ کا پیروکار ثابت کر کے آپؐ کی غلامی کے دعوے الاپتے ہیں۔ جب کہ حقیقت