مجاہدین ختم نبوت
حضرت مصعب بن زبیرؓ نے کوفہ پر حملہ کر کے مختار بن ابوعبید ثقفی اور اس کے ۸ہزار آدمیوں کو جہنم رسید کیا۔ بیس ہزار میدان جنگ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ حادثہ ۱۴؍رمضان ۶۷ھ میں پیش آیا۔ اس وقت مختار کی عمر ۶۷ سال تھی۔
انجام
اوائل میں خارجی المذہب تھا۔ حضرت حسنؓ پر قاتلانہ حملہ کوفہ میں اس نے کیا تھا۔ خود آنحضرتﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ ’’فی سقیف کذاب‘‘ قبیلہ سقیف میں ایک جھوٹا مدعی اور ایک ظالم حکمران پیدا ہوگا۔ علماء تاریخ نے اوّل سے مراد مختار اور دوسرے سے مراد حجاج بن یوسف لکھا ہے۔ اس کی جماعت کا نام فرقہ کیسانیہ ہے۔ مدعی نبوت ہونے سے پہلے اس نے شیعہ میں تفرقہ کی رسم جاری کی۔ یہ خارجیت سے رافضیت کی طرف آگیا تھا۔ ایک موقعہ پر اس نے کچھ قاتلان حسینؓ کو بھی قتل کیا۔ مختار کی جماعت میں سب سے مؤثر ابراہیم بن اشتر تھا۔ جس کی وجہ سے مختار کو پے در پے کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ جب ابراہیم، مختار سے علیحدہ ہوا تو اس کی وجہ اس کا دعویٰ نبوت تھا۔ حضرت مصعب بن زبیرؓ سے آخری معرکہ کوفہ کے قریب حروار کے مقام پر ہوا۔ اکثر فوج قلعہ بند ہوگئی۔ قتل کے بعد مختار کے دونوں ہاتھ کاٹ کر مسجد کے پاس کیلوں سے نصب کر کے لٹکا دئیے گئے۔ اب مختار کی بیویاں پیش کی گئیں۔ ان سے حضرت مصعبؓ نے پوچھا مختار کی نبوت ووحی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ ام ثابت بنت سمرہ نے مختار کی نبوت کے دعوے کو جھوٹ کہا۔ عمرہ بنت نعمان نے مختار کی نبوت کا اقرار کیا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ سے فرمان منگوا کر اس عورت کو بطور مرتدہ قتل کر دیا گیا۔
(ابن اثیر کامل ج۴ ص۲۷تا۷۳ ملخص)
نام مدعی
حارث کذاب بن عبدالرحمن بن سعید۔
کس زمانہ میں دعویٰ کیا
عبدالملک بن مروان کا زمانہ تھا۔