بھیجنے کا ذکر ہے۔ سب کے ساتھ ’’من قبل‘‘ اور ’’من قبلک‘‘ کی قید لگی ہوئی ہے۔ کہیں ’’من بعد‘‘ کا اشارہ تک نہیں۔ اگر ختم نبوت اور انقطاع وحی کا دوسری آیات میں صراحۃ ذکر نہ ہوتا تو قرآن کا یہ طرز ہی اس مضمون کی شہادت کے لئے کافی تھا۔‘‘ (معارف القرآن ج۱ ص۵۹،۶۰)
یہ بات کہ قرآن پاک کی کوئی ایک آیت بھی حضور اکرمﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد کی طرف خفیف سے خفیف اشارہ نہیں کرتی۔ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا اعتراف منکرین ختم نبوت بلکہ اجرائے نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی ہے۔ یہاں تک کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی نے اعتراف کیا کہ ان پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر قرآن پاک میں موجود نہیں۔ لیکن کسی مصلحت کے تحت انہیں دعویٰ نبوت ضرور کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی تصوراتی اور اختیاری وحی کے لئے قرآن پاک سے جواز پیدا کرنے کے لئے قرآن پاک میں معنوی تحریف کر ڈالی۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: ’’آج میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ قرآن مجید اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے۔ ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں۔ اس امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یکایک بطور القاء میرے دل میں یہ بات ڈال گئی۔ ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یؤقنون‘‘ میں تین وحیوں کا ذکر ہے۔ ’’بما انزل الیک‘‘ سے قرآن مجید کی وحی اور آخرت سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے۔ (ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ ش۴ ص۱۶۴ حاشیہ)
منکرین ختم نبوت نے قرآن پاک سے اجرائے نبوت ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں صرف اسی ایک آیت میں معنوی تحریف نہیں بلکہ ان لوگوں نے اپنے مقصد کی براری کے لئے قرآن پاک سے جتنی بھی آیات پیش کی ہیں۔ ان کی یا تومن گھڑت اور خودساختہ تاویل کی ہے۔ یا پھر ان میں معنوی تحریف سے کام کیا ہے۔ دراصل منکرین ختم نبوت کا یہ مذموم عمل ان کی طرف سے اس بات کا ناقابل تردید اعتراف ہے کہ اصول وضابطہ اور قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے حضور اکرمﷺ کے بعد قرآن پاک کی تعلیم میں کسی نئی نبوت کے آنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
منکرین ختم نبوت حضور اکرمﷺ کے بعد اجرائے نبوت کے دعویٰ میں یہ آیت بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ ’’یا بنی اٰدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن التقی واصلح فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون (الاعراف:۳۵)‘‘
حالانکہ آیت پاک کا مضمون ایک خبر ہے جو رسول اکرمﷺ کو دی گئی۔ آغاز آدمیت کے وقت ہی اولاد کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ نبوت کا ابھی تو آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد تمہاری اصلاح