’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یؤقنون (البقرہ:۴)‘‘ {اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔ اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا ہے۔ تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔}
حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر کے تحت اپنے مخصوص محققانہ انداز میں ختم نبوت کا مضمون بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’آیت کے اس طرز بیان سے ایک اہم اصول مسئلہ بھی نکل آیا ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپؐ کی وحی آخری وحی۔ کیونکہ اگر قرآن پاک کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی بھی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب اور وحی پر ایمان لانے کا ذکر بھی ضرور ہوتا۔ بلکہ اس کی ضرورت زیادہ تھی۔ کیونکہ تورات وانجیل اور تمام کتب سابقہ پر ایمان لانا تو پہلے سے جاری اور معلوم تھا۔ اگر آنحضرت محمدﷺ کے بعد بھی سلسلہ وحی اور نبوت جاری ہوتا تو ضرورت اس کی تھی کہ اس کتاب اور اس نبی کا ذکر زیادہ اہتمام سے کیا جاتا جو بعد میں آنے والے ہوں تاکہ کسی کو اشتباہ نہ رہے۔‘‘
’’مگر قرآن پاک نے جہاں ایمان کا ذکر کیا تو آنحضرتﷺ سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا۔ بعد میں آنے والی کسی وحی یا نبی کا کہیں قطعاً ذکر نہیں۔ پھر صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ قرآن پاک میں یہ مضمون اوّل سے آخر تک مختلف مقامات میں چالیس پچاس آیتوں میں آیا ہے۔ سب میں آنحضرتﷺ سے پہلے انبیاء پہلی وحی پہلی کتابوں کا ذکر ہے۔ کسی ایک آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی یا نبی آنے والا ہے۔ جس پر ایمان لانا مثلاً ارشاد ہے۔
۱… ’’وما ارسلنا من قبلک (نحل:۴۳)‘‘
۲… ’’ولقد ارسلنا رسلا من قبلک (مؤمن:۷۸)‘‘
۳… ’’ولقد ارسلنا من قبلک رسلا (روم:۴۷)‘‘
۴… ’’وما انزل من قبلک (النسائ:۶۰)‘‘
۵… ’’ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک (زمر:۶۵)‘‘
۶… ’’کذلک یوحی الیک والی الذین من قبلک (شوریٰ۳)‘‘
۷… ’’کما کتب علی الذین من قبلکم (بقرہ:۱۸۳)‘‘
۸… ’’سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا (اسرائیل:۷۷)‘‘
ان آیات میں اور ان کی امثال دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی و کتاب