اور زمانہ بزمانہ نبوت کی تدریجی ترقی کے مدارج کے لحاظ سے خداتعالیٰ ہر ہر درجے کی نبوت کے معیار کے مطابق انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا رہا۔ اپنے وقت اور زمانہ کے اعتبار سے ہر نبی کی نبوت تدریجی طور کے لحاظ سے مکمل اور کامل تھی۔ لیکن بالغ یا جوان نہ تھی۔ جس طرح ایک بچے کی قمیض اس کے وجود کی تدریج پیمائش کے اعتبار سے مکمل قمیض ہوتی ہے۔ لیکن ایک جوان آدمی کے وجود کو ڈھانپنے کی صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود اسے ناقص اور ناتمام نہیں کہا جاسکتا۔
اسی طرح حضور اکرمﷺ سے قبل مبعوث ہونے والے انبیاء علیہم السلام کی نبوت کو ارتقائی منازل کے اعتبار سے مختص بالقوم یا مختص بالزمان تو قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ناقص وناتمام نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن پاک نے صاف الفاظ میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام کی نبوت اپنے اپنے ترقی پذیر تدریجی مراحل کے لحاظ سے اسی طرح کامل اور مکمل تھی۔ جس طرح کہ حضور اکرمﷺ کی نبوت کے اعتبار سے کامل اور مکمل ہے۔ ’’انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح والنبیین من بعدہ (النسائ:۱۶۳)‘‘ {ہم نے تیری طرف وحی بھیجی۔ جیسا کہ وحی بھیجی نوح علیہ السلام پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوئے۔}
پس ثابت ہوا کہ نبوت اپنی جنس کے اعتبار سے اپنی پیدائش کے وقت بھی کامل اور مکمل تھی۔ لیکن اسے عالمگیر عروج وکمال، تدریجی ارتقاء کے عمل کے تحت ہی بخشا گیا۔ یعنی نبوت کی ابتداء چند افراد پر مشتمل نہایت محدود ماحول کے لئے جناب آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کی ترقی پذیر تدریجی عمل کی انتہائی پرواز آپؐ کے لامحدود مقام پر منتنج ہوئی۔ گویا کہ نبوت کی بلوغت یا عالمگیر حیثیت کو ہی ختم نبوت کا عنوان دیاگیا۔
اگر قرآن پاک نبوت کے تدریجی ترقی کے مضمون کو تکمیل دین یا ختم نبوت کے بیان پر ختم کر دیتا تو حقیقت کوئی اور روپ دھار سکتی تھی۔ لیکن قرآن پاک نے حقیقت کو حقیقت ہی کی نہج پہ رکھنے کے لئے ختم نبوت کے بیان کے اعتدال کے ساتھ ہی تدریجی عمل کے انجام کا مضمون منسلک کردیا اور یوں اسلام کی لامحدود اور لامتناہی فصیل میں کوئی گوشہ کوئی رکھنا اور ایسا باریک سے باریک سوراخ نہیں رہنے دیا گیا۔ جس سے ختم نبوت کے بعد اجرائے نبوت کے شبہ کی شعاع تک داخل نہ ہوسکتی ہو۔
قرآن پاک نے ختم نبوت کے مضمون کو شرائط ایمان کے اعتبار سے تدریجی ارتقاء کے اصول کے تحت تین ادوار ماضی، حال، مستقبل میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ (سو رۃ بقرہ:۵) میں اہل ایمان سے ماضی کی ترقی پذیر نبوت پہ ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مستقبل میں فنا یعنی قیامت کے آنے کا انتظار کرنے کو کہاگیا ہے۔