درخت بنتا ہے اور وہ پکتا ہے۔ اس طرح ایک مدت انتظار کے بعد کھایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کائنات کی ہر چیز ارتقاء کے عمل کے تحت پیدا ہوتی ہے اور مرحلہ وار منزل بمنزل دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ جوان یا مکمل ہوتی ہے اور پھر اسی قاعدہ کلیہ اور قانون کے تحت بتدریج ضعف کا شکار ہو کر فنا ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان بھی اسی بتدریجی ارتقاء کے عمل کے تحت پیدا ہو تابالغ ہوتا اور ضعیف ہوکر فنا ہو جاتا ہے۔
’’ھو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشدکم ثم لتکونوا شیو خاومنکم من یتوفی من قبل ولتبلغوا اجلا مسمی ولعلکم تعقلون (المؤمن:۶۷)‘‘ {وہی ہے جس نے تم کو خاک سے بنایا اور پانی کی بوند سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر تم کو بچہ نکالتا ہے۔ پھر جب تک کہ پہنچو پورے زور کو پھر جب تک کہ ہو جاؤ بوڑھے اور تم میں کوئی ایسا ہے کہ مر جاتا ہے۔ پہلے اس سے جب تک کہ پہنچو لکھے ہوئے وعدے کو تاکہ تم سوچو۔}
قرآن مجید کا یہ ارشاد ہے کہ انسان تدریجی ارتقاء کے عمل کے تحت پیدا ہوتا، جوان ہوتا اور بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ایک مشاہدہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور یہ بھی مشاہدہ ہے کہ تدریجی ارتقاء کی بالیدگی روانگی یا دوڑ یکطرفہ ہے جو نمود سے بلوغ اور بلوغ سے ضعف یعنی فنا کی طرف یکسانیت کے ساتھ ایک ہی نہج پے جاری وساری ہے۔ بچپن، جوانی کی طرف بڑھتا ہے اور جوانی بڑھاپے میں ڈھلتی ہے۔ تدریجی ارتقاء کی یہ دوڑ یا روانگی پلٹتی نہیں یعنی بڑھاپا جوانی کی طرف نہیں لوٹتا اور نہ جوانی بچپن کی طرف کھسکتی ہے۔ تدریجی ارتقاء یکطرفہ دوڑ خداتعالیٰ کا ایک قطعی فیصلہ ہے کہ ہر نمود کو کمال اور ہر کمال کو زوال لازم ہے۔
یہ مادی کائنات جس خدا کا فعل ہے۔ الہام (نبوت) اسی خدا کا قول ہے۔ جس خدا نے اس مادی کائنات کو تدریجی ارتقاء کے تحت عروج وکمال بخشا۔ اسی خدا نے روحانیت (نبوت) کو بھی تدریجی ارتقاء کے تحت ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اب اگر بڑھاپا جوانی کی طرف نہیں پلٹ سکتا تو پھر تکمیل دین اور ختم نبوت کے بعد نبی کیسے آسکتا ہے۔ اس صورت میں اجرائے نبوت کا دعویٰ بڑھاپے کو جوانی میں تبدیل کرنے کا ناقابل یقین بلکہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔
قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق نہ صرف یہ کہ انسانیت کا آغاز جناب آدم علیہ السلام کے وجود کی تخلیق سے ہوا تھا۔ بلکہ آغاز رسالت بھی آدم علیہ السلام کی نبوت سے ہواتھا۔ گویا کہ آدم علیہ السلام کی نبوت کی پیدائش تھی جو مادیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ بتدریج پرورش پاتی چلی گئی