قرآن مجید میں آخرۃ کا لفظ زیادہ تر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تو اس کے معنی قیامت یا مابعد الموت زندگی کے ہوتے ہیں۔ مثلاً فرمایا: ’’مالہ فی الاخرۃ من خلاق‘‘ ایسے شخص کا حصہ مابعد الموت زندگی میں نہ ہوگا۔ یا فرمایا: ’’بک ادراک علمہم فی الاخرۃ‘‘ بعد الموت زندگی کے بارے میں ان کا علم کامل ہوگیا۔ ایسے متعدد مقامات پر لفظ آخرۃ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بس اگر قرآن شریف میں اس لفظ کی کثرت کو دیکھا جائے تو اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ (مگر بالعموم ایسے موقعہ پر خالی آخرۃ کی جگہ ’’یوم الاخرۃ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں) لیکن اگر مضمون اور اس کے مطالب کو دیکھا جائے تو چونکہ اس جگہ پہلے آنحضرتﷺ کی وحی پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ پھر آپؐ سے پہلے جو وحی نازل ہوتی رہی۔ اس کا ذکر ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ آخرۃ سے مراد اس جگہ بعد میں آنے والی وحی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر ج۱ ص۱۴۴ کالم نمبر۲)
قرآن پاک کی دو آیات کا حوالہ دیتے ہوئے لفظ آخرۃ کے اصلی معنی ’’قیامت‘‘ تسلیم کرنے کے باوجود مرزابشیرالدین محمود نے یہ فریب کیا کہ قوسین کے مابین لکھ دیا۔ (مگر ایسے موقعہ پر عموماً خالی آخرۃ کی جگہ ’’یوم الاخرۃ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں) حالانکہ انہوں نے لفظ آخرۃ کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے بطور مثال قرآن شریف کی جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں بھی قیامت کے معنی ہیں۔ ’’آخرۃ‘‘ کا لفظ خالی استعمال ہوا ہے۔ درحقیقت مرزابشیرالدین کو اپنے ماننے والے عقل سے عاری لوگوں کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ قرآن پاک میں قیامت کے لئے محض ’’آخرۃ‘‘ کا لفظ نہیں آیا۔ بلکہ ’’یوم الاخرۃ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ آخرت کا لفظ صرف بعد میں آنے والی وحی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک میں اپنے اپنے مقام پر محل وموقعہ کے مطابق قیامت کے لئے آخرت اور یوم الاخرۃ کے الفاظ دونوں آئے ہیں۔ البتہ ’’آخرۃ‘‘ بمعنی بعد میں آنے والی وحی قرآن کریم کیا۔ لغات عربی میں بھی کہیں نہیں آیا۔ تماشہ یہ ہے کہ مرزابشیرالدین نے اپنے والد کی قرآن پاک میں کی ہوئی معنوی تحریف کی حمایت میں لفظ ’’آخرۃ‘‘ کا منطقی نتیجہ بعد میں آنے والی وحی بیان کرنے کے باوجود اس آیت کا لفظی ترجمہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ لفظ ’’آخرۃ‘‘ کے معنی وحی نہیں کیا بلکہ سرے سے اس لفظ کا ترجمہ ہی گول کر گئے۔ البتہ قوسین میں آئندہ ہونے والی موعودہ باتیں لکھ دیا۔ پوری آیت کا ترجمہ ان کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔