’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وباالآخرۃ ہم یؤقنون‘‘
اور جو اس پر جو تم پر نازل کیاگیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیاگیا ہے اور (آئندہ ہونے والی موعودہ باتوں) پر (بھی) یقین رکھتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج۱ ص۱۳۵،۱۳۶)
لطیفہ یہ ہوا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے ماننے والوں کو دھوکا اس طرح دیا کہ لفظ ’’آخرۃ‘‘ کا ترجمہ قیامت مان کر خود ساختہ منطقی استدلال سے اس کی مراد بعد میں آنے والی وحی لے لی۔ مگر مرزابشیرالدین محمود اپنے والد کے اس منطقی استدلال سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ کیونکہ انہوں نے لفظ ’’آخرۃ‘‘ کا منطقی نتیجہ بعد میں آنے والی وحی مراد رکھنے کے باوجود ترجمہ آئندہ ہونے والی موعود باتیں کردیا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ یہ آئندہ ہونے والی موعودہ باتیں کیا بلا ہیں۔ چونکہ مرزابشیرالدین محمود اس دار فانی میں قیام نہیں رکھتے اور اس جگہ جہاں وہ قیام پذیر ہیں۔ وہاں لیجائے جانے سے ہم خدا سے پناہ چاہتے ہیں۔ اس لئے کم ازکم قیامت تک یہ سوال تشنۂ جواب ہی رہے گا۔
ایک اور اشتراک عمل
یہودیوں اور عیسائیوں میں اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کرنے کا ایک ہی طریق ہے۔ تورات اور انجیل کا کوئی مقام جو ان کے اپنے اختیار کردہ عقیدہ کے خلاف ہو۔ اوّل تو اس مقام کی عبارت کی تاویل کرتے ہیں۔ لیکن اگر تاویل سے ان کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں تو پھر اس جگہ کی عبارت میں ردوبدل کر دیا جاتا ہے۔ تحریف وحذف کی اس یہودی اور عیسائی مشترکہ زنجیر کی تیسری کڑی مرزاقادیانی نے بناکر ان سے الحاق کر لیا ہے۔ یہ یوں ہوا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے سورۂ آل عمران:۲۸ کی تاویل کر کے ثابت کر نے کی کوشش کی کہ جناب مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ اسلام سے مذاق ہے بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کو سزا بھی ہے۔ استدلال ان کا یہ ہے کہ قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق جناب رسالت مآبﷺ کی بعثت سے پہلے آنے والے تمام انبیاء آپؐ پر ایمان لاکر آپؐ کے امتی بن چکے ہیں۔ اس لئے اب یہ ممکن نہیں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام انفرادی طور پر دنیا میں آکر حضورﷺ پہ دوبارہ ایمان لائیں۔ پوری بات مرزاقادیانی کے قلم کے نشانات کے نتیجہ میں ملاحظہ ہو۔
’’واذ اخذاﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم