من قبلک‘‘ سے انبیاء سابقین کی وحی اور ’’آخرۃ‘‘ سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے۔ ’’آخرۃ‘‘ کے معنی پیچھے آنے والی۔ وہ پیچھے آنے والی چیز۱؎ کیا ہے۔ سیاق کلام سے ثابت ہے کہ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی۔ کیونکہ اس سے پہلے دو وحیوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو آنحضرتﷺ سے پہلے نازل ہوئی۔ دوسری وہ جو آپ کے بعد نازل ہونے والی تھی۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ ش۴ ص۱۶۴ حاشیہ)
خودساختہ منصب نبوت پہ خود کو فائز کرنے کے لئے قرآن پاک میں معنوی تحریف کرنا مرزاغلام احمد قادیانی کا ایسا کردار ہے جو آپ کو یہودی ضلالت وگمراہی کے دائرے سے باہر نہیں رہتے دیتا۔ عقل سلیم اور فہم مستقیم کے حامل افراد کے لئے یہ دیکھنا کہ مرزاقادیانی کی اصلیت کیا ہے۔ اس کے لئے ان کا یہی تحریف قرآن والا عمل کافی ہے۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے ایک شعر میں کہا ہے۔
اک نشانی کافی ہے گرہو دل میں خوف کرد گار
لیکن وہ لوگ جن پر خداتعالیٰ کے اس ارشاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ ’’ختم اﷲ علیٰ قلوبہم وعلیٰ سمعہم وعلیٰ ابصارہم غشاوۃ‘‘ {اﷲ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔}
ایک قدم اور آگے چلئے
آنجہانی مرزابشیرالدین محمود نہ صرف یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے دوسرے جانشین ووارث تھے۔ بلکہ مرزاقادیانی کی بناوٹی نبوت کے کھیون ہار بھی تھے۔ آپ نے اپنے والد کی تحریف کے خلاف لفظ آخرۃ کے معنی قیامت تو کئے۔ لیکن اپنی آبائی گدی پر بحیثیت خلیفہ ثانی اور مصلح موعود کے براجمان رہنے کے لئے عقل وشعور کو خیرباد کہہ کر لفظ آخرۃ کے معنوں کا منطقی نتیجہ وحی نکالا۔ آپ لفظ آخرۃ پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’لفظی معنی ’’وبالاخرۃ ہم یؤقنون‘‘ کے یہ ہیں کہ بعد میں آنے والی شے پہ یقین رکھتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ بعد میں آنے والی شے کیا ہے تو اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ
۱؎ مرزاقادیانی کو جب تحریف کرنا مقصود نہیں تھا تو آپ نے آخرۃ کے معنی پیچھے آنے والی گھڑی یعنی قیامت کئے۔ لیکن جب تحریف کی گئی تو آخرۃ کے معنی پیچھے آنے والی وحی لینے لگے۔ سچ ہے کہ دروغ گورا حافظہ نہ باشد۔