مرزاغلام احمد قادیانی اپنی خودساختہ نبوت کو اﷲتعالیٰ کی جانب سے ثابت کرنے کے لئے یہودی طرز فکر کے مطابق قرآن پاک میں معنوی تحریف کرنے کے خود مرتکب ہوئے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیت: ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ہم یؤقنون‘‘ اور جو نازل کیاگیا آپ پر اور جو نازل کیاگیا آپ سے پہلے انبیاء پر اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ آیت حضورﷺ کو اس معنی میں خاتم النبیین قرار دیتی ہے کہ اب آپؐ کے بعد قیامت ہی آئے گی اور کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ بلکہ صرف قیامت آئے گی۔ مرزاقادیانی یہ اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزمان پر جو کچھ اتار گیا اس پر ایمان لاوے اور اس پیغمبر سے پہلے جو کتاب اور صحیفے سابقہ انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوئے ان کو بھی مانے۔ ’’وبالآخرۃ ہم یؤقنون‘‘ اور طالب نجات وہ ہے جو پیچھے آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اورجزا وسزا مانتا ہو۔‘‘ (الحکم ج۱۴ ش۳۴،۳۵، ص۹)
حضورﷺ کے بعد نبی یا رسول آنے کی بجائے قیامت کے آنے کا اقرار تو مرزاقادیانی نے کر لیا۔ لیکن انہیں احساس ہوا کہ ان کا دعویٰ نبوت ایسا دعویٰ ہے جس کی تصدیق قرآن پاک سے ہونا ممکن نہیں اور قرآن پاک کی تصدیق کے بغیر مسلمان ان کی کوئی بات مان لیں یہ خارج از امکان ہے۔ بس یہی وہ احساس تھا جس نے مرزاقادیانی کو کلام الٰہی میں تحریف کرنے اور یہودی راہ پر گامزن ہونے پر مجبور کیا۔ احساس محرومی کا شکار ہوکر اپنی بناوٹی اور خودساختہ نبوت کو قرآن پاک سے جو جواز فراہم کرنے کے لئے یہودی طرز عمل یعنی تحریف کتاب اﷲ پر آمادہ ہوئے اور قرآن پاک میں معنوی تحریف کر ڈالی اور قرآن پاک کے لفظ آخرۃ کے معنی قیامت کو اپنی تحریف کے نتیجہ میں لفظ وحی سے بدل دیا اور اپنے قلم سے اپنی یہودی ذہنیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھا۔ ’’آج میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے۔ ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں۔ اس امر پر توجہ کر رہاتھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بطور القاء یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یؤقنون‘‘ میں تین وحیوں کا ذکر ہے۔ ’’ما انزل الیک‘‘ سے قرآن شریف کی وحی ’’وما انزل