بلکہ مرزاقادیانی نے یہ بھی کہا کہ ’’اس لڑکی کے نکاح کی خبر کو میں اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کا معیار سمجھتا ہوں۔‘‘
اور یہ بھی کہا کہ: ’’مجھے اﷲتعالیٰ نے اسی طرح بتایا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً ملخص)
مرزاقادیانی کی دوسری پیش گوئیوں کی طرح یہ پیشین گوئی بھی جھوٹ ثابت ہوئی اور محمدی بیگم کا نکاح سلطان محمد نامی شخص کے ساتھ ہوگیا۔ اس پر مرزاقادیانی نے اپنا جھوٹا الہام اس طرح سے شائع کیا کہ اﷲتعالیٰ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے باوجود تجھ پر واپس کروں گا اور یہ لڑکی میں تجھے دے چکا اور میری تقدیر بدلتی نہیں ہے۔
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۱ ملخص)
ایک مرتبہ مرزاقادیانی نے خوب عاجزی کے ساتھ اﷲپاک کے حضور میں دعا کی اور یوں عرض کیا کہ اے اﷲ! احمد بیگ کی بڑی بیٹی (محمدی بیگم) کا بالآخر میرے نکاح میں آنا آپ کی طرف سے اس کی خبر دی گئی۔ لہٰذا آپ اس کو ظاہر فرمائیں تاکہ تیری مخلوق پر حجت قائم ہو جائے اور اگر یہ خبریں تیری طرف سے نہیں ہیں تو اے اﷲ مجھے ذلت اور محرومی کے ساتھ ہلاک فرما۔
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۹، ملخص)
اس دعا اور الحاح وزاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمدی بیگم برابر اپنے شوہر کے گھر میں آباد رہی اور مرزاغلام احمد قادیانی کا آخر دم اس سے نکاح نہ ہوا۔ یہاں تک کہ مرزاقادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا اور اپنے اصلی ٹھکانہ پر پہنچ گیا۔ ہیضہ کے مرض میں اس کی موت ہوئی اور دنیا والوں نے اس کی ذلت اور محرومی دیکھ لی اور جس چیز کو اپنے سچا جھوٹا ہونے کا معیار بتایا تھا۔ وہی چیز اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل بن گئی۔ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘
مولانا ثناء اﷲ امرتسری سے مرزاقادیانی کا خطاب
اور ذلت وحسرت کے ساتھ مرزاقادیانی کی موت
ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ برابر مرزاقادیانی کا تعاقب کرتے رہتے تھے اور مرزاقادیانی کی تردید میں انہوں نے بہت زیادہ حصہ لیا ہے۔ ایک مرتبہ جب مرزاقادیانی کو جوش آیا تو اس نے یہ الفاظ شائع کر دئیے۔