دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں۔ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ حالانکہ کلمہ گو کا معنی یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے معبود وحدہ لاشریک ہونے کا سچے دل سے یقین کرے اور حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی نبوت اور رسالت کو دل سے تسلیم کرے اور جو کچھ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اﷲﷺ نے بتایا ہے۔ اس سب کو تسلیم کرے اور آپؐ نے جو عقیدے بتائے ہیں۔ ان پر یقین کرے اور ان کو اپنا عقیدہ بنائے اور قرآن مجید کی ہر بات کو لفظی اور معنوی تحریف کے بغیر دل وجان سے مانے، جو شخص ان میں سے کسی بھی چیز سے منحرف ہو وہ کافر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خواہ زبان سے کتنی ہی بار کلمہ پڑھے اور مسلمان ہونے کا اظہار کرے۔
زمانہ نبوت میں منافق زبانی کلمہ گو تھے
پھر بھی قرآن نے ان کو کافر بتایا
یہ تو سب جانتے ہیں کہ فخر عالم محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے۔ جو کلمہ پڑھتے تھے۔ پھر بھی کافر تھے۔ جن کو قرآن وحدیث میں منافقین کا لقب دیاگیا ہے۔ (سورہ بقرہ:۸) میں ارشاد ہے: ’’ومن الناس من یقول امنا باﷲ وبالیوم الاٰخر وما ہم بمؤمنین‘‘ {بعضے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر۔ حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔}
دیکھو اس آیت میں ایمان کا اقرار کرنے والوں کو بھی غیرمؤمن بتایا ہے۔ یہ لوگ منافق تھے۔ زبان سے کلمہ اسلام پڑھتے تھے۔ قرآن نے ان کے بارے میں یہ فرمایا کہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر کلمہ گو مؤمن نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ فقہاء کی عبارات کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے یوں کہتے ہیں کہ کلمہ گو سب مسلمان ہیں یا یوں کہتے ہیں کہ اہل قبلہ سب مسلمان ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سخت غلطی ہے اور ان کی جہالت پر مبنی ہے۔ (ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبرص۱۸۹) کے تکملہ میں فرماتے ہیں: ’’وان المراد بعدم تکفیر أحد من أھل القبلۃ عند اہل السنۃ أنہ لایکفر مالم یؤجد شیٔ من امارات الکفر وعلاماتہ ولم یصدر عنہ شیٔ من موجباتہ‘‘ {جاننا ضروری ہے کہ حضرات اہل سنت نے یہ جو فرمایا ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہا جائے۔ یہ اس وقت ہے۔ جب اہل قبلہ سے کوئی چیز کفر کی علامت میں سے ظاہر نہ ہو اور کوئی ایسی چیز صادر نہ ہو۔ جس سے اس پر کفر عائد ہوتا ہو۔}