رسالت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ غلام احمد کو اس کا مصداق بتانا صریح دھوکہ اور فریب ہے۔ مرزاقادیانی کا نام، ماں باپ کا رکھا ہوا شروع ہی سے غلام احمد تھا اور موت آنے تک اس کا یہی نام رہا۔ پھر اس کے نام سے لفظ غلام کو ہٹا کر اس کو احمد مرسل کا مصداق بتانا واضح تلبیس وتزویر ہے۔
دوم یہ کہ قرآن مجید میں الفاظ مذکورہ کے ساتھ ہی بلا فصل یہ بھی فرمایا: ’’فلماجاء ہم بالبینات قالوا ہذا سحر مبین (:۶)‘‘
یعنی جب احمد نامی شخصیت کی لوگوں کے سامنے آمد ہوئی جس کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اور انہوں نے کھلے کھلے دلائل اپنی رسالت کے ثبوت میں پیش کئے تو اس وقت کے اوّلین مخاطبین نے یہ کہا کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اس میں قادیانیوں کے دعوے کی دو طرح سے واضح تردید ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق جب سورہ صف کی آیت نازل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے احمد مرسلﷺ کی بعثت ہوچکی تھی اور مخالفین ان کو جادو گر کہہ چکے تھے۔ جاء ماضی کا صیغہ ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ جس احمد رسول اﷲﷺ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی۔ وہ بوقت نزول قرآن تشریف لاچکے ہیں۔ لہٰذا آیت مذکورہ کے نازل ہونے کے بعد کسی نئی شخصیت کے پیغمبر ہونے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ پھر آیت کریمہ میں یہ بھی فرمایا کہ احمد رسول اﷲﷺ جن کی آمدکی خوشخبری حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ وہ کھلے کھلے دلائل اور معجزات لے کر آئے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ مرزاقادیانی نے جھوٹے دعوؤں اور تلبیس وتزویر اور تحریف کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ لہٰذا اس کو آیت کا مصداق وہی شخص قرار دے سکتا ہے جس کی عقل اور ایمان سلب ہو چکے ہوں۔ تیسری چیز جو آیت شریفہ میں مذکور ہے۔ جس سے قادیانیوں کے دعوے کی کھلی تردید ہورہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب احمد مرسلﷺ تشریف لائے تو ان کے مخاطبین نے ان کے لائے ہوئے معجزات کو کھلا ہوا جادو بتایا اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے مخاطبین نے یہی وطیرہ اختیار کیا تھا کہ ان کے معجزات کو جادو بتا کر ان کی نبوت کے ماننے سے انحراف کیا۔
سورۂ ذاریات میں فرمایا: ’’کذالک ما أتی الذین من قبلہم من رسول الا قالوا ساحراً ومجنون (ذاریات:۵۶)‘‘ {اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں جس کو انہوں نے ساحر یا مجنون نہ کہا ہو۔}