۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’مطہرک من الذین کفروا‘‘ کشمیر اس وقت کفر اور شرک کا گہوارہ تھا۔ پھر کفار سے تطہیر کیسے ہوئی۔
لہٰذا مرزاقادیانی کا الہام غلط اور شیطانی وسوسہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ ناقابل قبول ہے۔ ایک اور بات قابل غور ہے جیسا کہ یہ اوّل اشارہ کر چکے ہیں کہ نصرانیوں کا یہ مذہب اور عقیدہ تھا۔ قرآن کے نزول سے اوّل کہ حضرت جسد مع الروح کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں اور جب وفد نصاریٰ نجران جن میں بڑے بڑے علماء اور رؤسا تھے۔ حضورﷺ نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ ’’اذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین التبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ آیت ہذا میں اگر متوفیک کا معنی موت ہوتا تو نصرانی اس کا اپنے عقیدہ کے مطابق انکار کرتے۔ قرآن نے مسلمہ عقیدہ نصاری کو تسلیم کرتے ہوئے ایسے الفاظ فرمائے۔ جن کو انہوں نے مان لیا اور ساتھ ہی مسلمانوں نے بھی قبول کر لیا۔ قرآن کا فرض تھا کہ جس طرح حضرت مسیح کی الوہیت اور خدائی کا ان کے روبرو رد کیا۔ اسی طرح ان کے اس عقیدہ کا بھی انکار کرتاکہ حضرت عیسیٰ کشمیر میں وفات پاچکے ہیں۔ تمہارا عقیدہ غلط ہے۔ آیت مذکورہ میں توفی مقدمہ ہے۔ رفع کا جیسا کہ ہم ائمہ لغت سے ثابت کر چکے ہیں کہ اخذالشیٔ وتناول الشیٔ وقبض الشیٔ کو توفی الشیٔ کہتے ہیں۔ تو قبض واخذ کے بغیر رفع ممکن نہیں ہے۔ اسی تقریر پر تقدم تاخیر کی ضرورت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے۔ سلف میں توفی کا تفسیر میں اختلاف کی بلکہ ایک ہی مفسر نے کبھی کوئی معنی بیان کر دیا اور کبھی کوئی معنی فرمادیا۔ کبھی اخذ کبھی رفع اور کبھی اماتت جس مفسر سے اماتت منقول ہے۔ اس کی مراد بعد از نزول علی الارض ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے بلاسند قول نقل کیا ہے۔ امام حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں کہا ہے کہ عند المحدثین اس قول کی صحت اور عدم صحت میں کلام ہے۔ اسی واسطے امام بخاری نے سند نقل نہیں کی اور فتح میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے کا اجماع امت نقل فرمایا اور عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم اور نسائی وابن مردوویہ نے عبداﷲ بن عباسؓ سے نقل کیا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ اٹھالئے گئے۔ امام ابن کثیر نے یہ سند بیان کر کے کہا۔ ہذا اسناد صحیح متبنی کذاب نے اس لفظی اختلاف کو حقیقی اختلاف قرار دے کر مفسرین پر طرح طرح کی بکواس کر کے کتاب اور سنت اور اجماع امت کا انکار کر کے اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم!