ہوئے عرض کیا کہ’’ماقلت لہم الاما امرتنی بہ‘‘ اور اگر تمہارے اس شیطانی خیال اور وسوسہ کو مان لیا جائے تو اس سے پہلے رکوع کی اوّل آیت کو پڑھو جو یہ ہے۔ ’’یوم یجمع اﷲ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوا لا علمنا انک انت علام الغیوب‘‘ یعنی جس دن اﷲتعالیٰ تمام رسولوں کو اکٹھا کرے گا اور فرمائے گا تم کو کیا جواب ملا تو تمام رسول کہیں گے۔ ہمیں کوئی علم نہیں۔ اب تم بتاؤ حضرت محمدﷺ کو علم نہیں کہ مجھے ابوجہل نے کیا جواب دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم نہیں کہ مجھے فرعون، ہامان، قارون نے کیا جواب دیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو علم نہیں کہ نمرود نے مجھے کیا جواب دیا۔ تمام رسول اپنے علم کی مطلقاً نفی فرمادیتے ہیں۔ تم اپنے نبی مصنوعی کی قبر پر بھی جاکر فریاد کرو تو تم کو جواب نہیں آئے گا۔ سوا مسلمان علماء کی کتب بینی کے اور وہ ہی علماء ہیں۔ جن کا ایمان یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت نازل ہوں گے۔
ان وساوس کا بیان جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں آگیا۔ جہاں ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ توفی کا معنی لغت عرب میں موت کے لئے وضع نہیں ہے۔ ا س کاا معنی اخذالشی بتمامہ ہے اور استعارہ ہے اور نوم وموت ہے۔ قرآن احادیث دونوں کا متفق اسی پر فتویٰ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے روح مع الجسد کے آسمان پر اٹھالیا اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو نہ قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ یقینی اور سچی بات یہ ہے کہ یہودیوں نے ان کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا۔
اب اگر مرزائی مذہب کے مطابق رفع سے مراد رفع درجات ہے۔ موت طبعی مراد ہو تو قابل غور بات یہ ہے۔ یہود حضرت مسیح کی روح کو قتل کرنے کے درپے تھے یا جسم کو قتل کرنے کی سعی تھی۔ ظاہر ہے کہ قتل جسم ہی ہوتا ہے نہ روح۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ یہود جس کو قتل کرنا چاہئے اس کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا۔ معلوم ہوا کہ مرفوع جسم معہ روح ہوا۔ نہ صرف روح اور قول اﷲ وما قتلوہ یقینا اسی زمانہ کی حکایت ہے۔ جس وقت وہ قتل کے درپے تھے تو بل رفعہ اﷲ الیہ بھی اسی وقت ہونا چاہئے۔ نہ یہ کہ قتل کی نفی کے ستاسی اٹھاسی برس بعد کشمیر میں جاکر موت طبعی سے وفات ہوئی۔ جس طرح قادیانی متنبی کا شیطانی الہام ہے۔ کشمیر میں حضرت عیسیٰ کا جانا قرآن حدیث یا تاریخ کسی سے کوئی ثبوت ہرگز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ کشمیرمیں جانا قرآن کی اس آیت کے خلاف قرآن نے حضرت عیسیٰ سے جو یہود کی سازش کے وقت چہار وعدے خداوندی بیان کئے ہیں۔