اور حیاء ہو تو ان خرافات سے اجتناب کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین اور تحقیر کر کے تم ملعون ہو گئے۔ جیسا کہ تم اور تمہارے کذاب نبی نے ان کو قاتل خونی ڈاکو شرابی وغیرہ وغیرہ کہا۔ کیا یہ نصوص صریحہ کی تکذیب اور انکار نہیں ہے۔ چنانچہ (نور الحق ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۸) پر بڑے کذاب کی یہ عبارت ہے: ’’کلم اﷲ موسیٰ علی جبل وکلم الشطین عیسیٰ علی جبل فالنظرالفرق بینہما ان کنت من الناظرین‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اﷲتعالیٰ نے پہاڑ پر کلام کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہاڑ پر شیطان نے کلام کیا۔ دونوں میں فرق کیا ہے۔ اے مخاطب تو خود غور کر۔‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا عقیدہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وفات نہ پانے کا یقین یہ دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یانصوص سے بے خبری یادیدہ دانستہ کتاب اور سنت کا نقیض، ہر حالت میں کفر صریح اور بے حیائی قبیح ہے۔ نعوذ باﷲ من ذالک الکفر!
سورۂ سجدہ پارہ۲۱ میں یہ آیت ’’ولقد اٰتینا موسیٰ الکتاب فلا تکن فی مریۃ من لقائہ‘‘ اب دیکھئے من لقائہ میں ضمیر کا مرجع قاعدہ نحوی کے رو سے کتاب ہے۔ جو اقرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی۔ اسی طرح آپ کو قرآن دیا۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور ضمیر کا مرجع اگر لفظ موسیٰ ہی کو مان لیا جائے تو یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ حضرت موسیٰ کی وفات نہیں ہوئی۔ دیکھو حضرت موسیٰ کی وفات کا بیان صحیح بخاری میں ہے۔ بسط اور وضاحت سے حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ فلاں ریگ کے سرخ ٹیلے کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر شریف ہے۔ میں نے ان کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
اگر ضمیر کا مرجع لفظ موسیٰ ہو تو مطلب یہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی گئی۔ اس میں کوئی شک نہ کیا جائے۔ حضرت موسیٰ کی موت اور حیات سے آیت کا کوئی تعلق اور تعرض قطعاً نہیں ہے۔ ایک شیطانی مغالطہ ملحد کا یہ بھی ہے کہ اس قدر طویل زندگی شرک باﷲ ہے۔ حالانکہ حدیث میں ہے۔ ہر نبی کو اختیار دیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بخاری میں ہے کہ ان کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ ایک بیل کی پشت پر ہاتھ رکھیں۔ جس قدر آپ کے ہاتھ کے نیچے بال آئیں گے۔ اسی قدر ہر بال کے عوض ایک سال زندگی عطاء ہوگی۔ تو کیا یہ شرک ہوتا۔ لا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم!