اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۸،۶۹) پر یہ ارشاد ہے: ’’عیسیٰ صرف ان نبیوں کی طرح ایک نبی خدا کا ہے اور وہ اس نبی معصوم کی شریعت کا ایک خادم ہے۔ جس پر تمام دودھ پلانے والی حرام کی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کی چھاتیوں تک پہنچایا گیا اور اس کا خدا کوہ سینا میں اس سے ہم کلام ہوا اور اس کو پیارا بنایا۔ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے اور مردوں میں سے نہیں۔‘‘
یہ عبارت کا ترجمہ مرزاقادیانی کا ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے۔
ناظرین اور سنئے! مرزاقادیانی اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۳۵، خزائن ج۷ ص۲۲۱) پر یوں فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ ’’بل حیاۃ کلیم اﷲ ثابت بنص القرآن الا تقرء فی القرآن ما قال اﷲ تعالیٰ فلا تکن فی مریۃ من لقائلہ وانت تعلم ان ہذہ الایۃ فزلت فی موسیٰ فھی دلیل صریح علیٰ حیات موسیٰ لانہ لقی رسول اﷲ والاموات لا یلاقون الاحیائ‘‘ ترجمہ: بلکہ موسیٰ علیہ السلام کا زندہ ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ کیا تو نہیں پڑھتا قرآن میں جو کچھ اﷲ نے فرمایا۔ فلا تکن فی مریۃاور تجھے علم ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰ کے حق میں نازل ہوئی ہے اور یہ صریح دلیل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی۔ اس واسطے کہ وہ رسول اﷲﷺ سے ملے ہیں اور مردے زندوں سے ملاقات نہیں کرتے۔‘‘
قربان جائیے۔ تیری مسیحیت اور مہدیت پر کچھ شرم اور حیاء ہو یا خوف خدا ہو تو اس کذب اور افتراء پر اس قدر جسارت اور دلیری ممکن نہیں۔ کیا یہ صریح دلیل نہیں ہے تمہاری جہالت اور کمینگی کی۔
اچھا صاحب! یہ فرمائیے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام موسوی شریعت کے خادم ہو سکتے ہیں تو شریعت محمدی کے خادم ہونے میں شرعاً عقلاً کیا قباحت ہے اور تم لوگ اپنے بے ایمان اور بے حیاء ہونے کے باعث قرآن اور سنت سے استہزاء اور تمسخر کرتے ہو اور کہتے ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اتنی مدت سے بول براز کرتے رہے تو آسمان پر کس قدر غلاظت جمع ہو چکی ہوگی۔ اب اگر مسلمان تمہاری اس حماقت کا الزامی جواب یہ دیویں کہ حضرت موسیٰ کے متعلق جو تم جواب دو گے وہی ہماری طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جواب ہے۔ تمہیں شرم