سے نازل ہونا کسی حدیث میں نہیں آیا۔ یعنی حدیث میں لفظ سما کوئی نہیں ہے۔ جواباً عرض ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’ینزل من السمائ‘‘ امام بیہقی کی کتاب اسماء والصفات ص۳۰۱ پر صحیح سند سے موجود ہے اور کنزالعمال میں موجود ہے۔
نیز قابل غور بات یہ ہے کہ تمام مفسرین کے ہاں یہ بات مسلم ہے اور مرزائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ مولوی محمد علی لاہوری نے بھی یہی لکھا ہے کہ سورۃ آل عمران ابتداء سے لے کر آیت مباہلہ تک وفد نجران کی آمد پر نازل ہوئی۔ یہ نصرانیوں کا وفد جس میں ستر کے قریب بڑے بڑے پادری موجود تھے۔ مدینہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورﷺ سے مناظرہ کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خد اہونے کا جب حضورﷺ نے انکار کیا تو انہوں نے حضورﷺ سے کہا کہ عیسیٰ کا باپ کون تھا۔ اس پر یہ قریباً نوے آیات نازل ہوئیں۔ انہی آیات سے یہ آیت بھی ہے۔ ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک‘‘ عیسائیوں کا یہ مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں اور دوبارہ قیامت کے دن نازل ہوں گے۔ اب قابل غور یہ ہے کہ اگر انی متوفیک کا معنی موت ہوتا تو قرآن نے ان کو اور تمام مسلمانوں کو وہی لفظ بول کر جوان کے عقیدہ کے موافق تھے۔ ہمیشہ کے لئے غلطی میں مبتلاء کیوں رکھا اور نصرانیوں نے اس کو تسلیم کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ متوفی کا معنی موت آیت میں نہیں ہے اور اسی مناظرہ میں ہے کہ حضورﷺ نے ان نصرانیوں کو فرمایا۔ ’’ان عیسیٰ یأتی علیہ الفنائ‘‘ یعنی عیسیٰ پر ایک وقت فنا آئے گی۔ یأتی صیغہ مستقبل کا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ پر آئندہ ایک زمانے میں موت آئے گی۔ محمد علی لاہوری نے اپنی تفسیر میں مضارع کا ماضی کے معنی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کہ عیسیٰ پر فنا آچکی ہے۔ یہ نہایت بددیانتی اور بے ایمانی ہے۔ جس شخص میں معمولی حیاء بھی ہو۔ وہ بھی ایسا فریب اور دغاکرنے سے شرماوے۔ مگر ان لوگوں کی اپنے نبی کے موافق عادت ہے کہ جھوٹ سے ذرا بھر پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کسی کتاب میں یأتی کے سوا اتی کا لفظ ہرگز نہیں آیا۔
طرہ یہ ہے کہ بزعم خود مسیح موعود صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق قرآن اور دو صد احادیث اور حضورﷺ کے زمانے سے آج تک تمام امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ ان کی وفات کا قائل ہے اور حضرت موسیٰ کے آسمان پر زندہ ہونے کا قائل ہے کہ حضرت موسیٰ کی تاحال وفات نہیں ہوئی۔ چنانچہ اپنی کتاب (نور الحق حصہ