کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لئے اوّل اس لفظ کا استعمال شروع کیا تو اسی کو حق ہے کہ موت ونوم کی طرح اخذ روح مع البدن کے نادر مواقع میں بھی اسے استعمال کر لے۔
بہرحال آیت حاضرہ میں جمہور کے نزدیک توفی سے مراد موت نہیں اور ابن عباسؓ سے بھی صحیح ترین روایت یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ کما فی روح المعانی وغیرہ زندہ اٹھائے جانے یا دوبارہ نازل ہونے کا انکار سلف میں کسی سے منقول نہیں۔ بلکہ تلخیص الحبیر میں حافظ ابن حجر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر وغیرہ نے احادیث نزول کو متواتر کیا ہے اور کمال، اکمال المعلم میں امام مالکؒ سے اس کی تصریح نقل کی ہے۔ پھر جو معجزات حضرت مسیح علیہ السلام نے دکھلائے۔ ان میں علاوہ دوسری حکمتوں کے ایک خاص مناسبت آپ کے رفع الیٰ السماء کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ آپ نے شروع ہی سے متنبہ کر دیا کہ جب ایک مٹی کا پتلا میرے پھونک مارنے سے باذن اﷲ پرند بن کر اوپر اڑا چلا جاتا ہے۔ کیا وہ بشر جس پر خدا نے روح اﷲ کا لفظ اطلاق کیا اور روح القدس کے نفخہ سے پیدا ہوا۔ یہ ممکن نہیں کہ خدا کے حکم سے اڑ کر آسمان تک چلا جائے۔ جس کے ہاتھ لگانے یا دو لفظ کہنے پر حق تعالیٰ کے حکم سے اندھے اور کوڑھی اچھے اور مردے زندہ ہو جائیں۔ اگر وہ اس مؤطن کون وفساد سے الگ ہوکر ہزاروں برس فرشتوں کی طرح آسمان پر زندہ اور تندرست رہے۔ تو کیا استبعاد ہے۔ قال قتادہؒ ’’…… مع الملائکہ فھو معہم حول العرش وصار انسیا ملکیا سماویا ارضیا‘‘ اور جب توفی کا معنی اخذا شیٔ بتمامہ ثابت ہوا تو توفی مقدمات رفع سے ہے اور یہی وجہ ہے مفسرین کے اختلاف کی، لفظ توفی میں چونکہ اس کے تین معنی ہیں۔ مفسرین نے اس واسطے کبھی معنی ایک لیا کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا۔ بلکہ ایک ہی مفسر نے کبھی ایک جگہ ایک معنی اور دوسری جگہ دوسرا معنی مراد لیا ہے اور یہ حقیقتاً اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے الدار المنثور میں النسائی وابن ابی حاتم وابن مردویہ میں صحیح سند سے عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا نقل کیا ہے اور ابن عباسؓ ہی سے بخاری نے موت کا معنی نقل کیا ہے۔ اسی واسطے کہ موت بعد از نزول قرب قیامت میں ہوگی اور امام بخاریؒ نے ابن عباسؓ کا قول بلا اسناد نقل کیا ہے۔ امام ابن حجرؒ نے فتح میں کہا ہے کہ ابن عباسؓ کی مراد موت سے بعد از نزول ہے۔ دوسرا یہ قول ابن عباسؓ کا اس کی اسناد میں عند المحدثین متکلم فی ہے۔ یعنی محدثین کو اس کی صحت اور عدم صحت میں اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے امام بخاریؒ کا اس قول کو بے محل اور بلاسند نقل کرنے کی اور مرزائی ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان