کے نزدیک ہے اور فصحاء وبلغاء کے کلام میں توفی کا معنی استیفاء واخذ الحق ہے۔ ظلم یہ ہے کہ مرزاقادیانی اور مرزائی کے ہاں ایسے مواقع پر تمام ائمہ لغت مسلوب الامامت اور ابعد عن العلوم ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً جب اپنی اصطلاح میں ہر احلام کا نام الہام رکھ دیتے ہیں۔ پھر نہ کتاب وسنت اور نہ لغت کا لحاظ کسی چیز کی قدروقیمت نہیں رہتی۔ اپنے الہامات کے باعث نبی رسول مسیح موعود بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ نعوذ باﷲ من ذالک!
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’اﷲتعالیٰ نے قرآن میں یہ کہیں نہیں فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام مرگئے اور قتل ہوگئے۔ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘
حضرت مسیح کا قول ’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ اور سورۃ النساء میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ ہم نے ان کو ذلیل خوار کیا۔ ان کی ذلت کی وجہ اﷲتعالیٰ کی آیات کے انکار کی وجہ سے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اور حضرت مریم پر بہتان عظیم لگانے کے باعث اور ان کے یہ کہنے کے باعث کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا ہے۔ جو اﷲ کا رسول بزعم خود تھا اور بات یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو نہ قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن اﷲتعالیٰ نے ان کو شبے میں ڈال دیا۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کے متعلق اختلاف میں ہیں۔ ان کو کوئی علم نہیں۔ مگر ظن وگمان کا اتباع کر رہے ہیں۔ یقینی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو انہوں نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ تعالیٰ غالب حکیم ہے۔ ان آیات میں اﷲتعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت کی ہے۔ حضرت مریم پر بہتان لگانے سے اور حضرت عیسیٰ کے قتل کے مدعی ہونے کی وجہ سے اور اس مذمت میں نصاریٰ داخل نہیں ہیں۔ اس واسطے کہ سولی کا سوانگ صرف یہودیوں نے رچایا تھا۔ اس موقع پر کوئی نصرانی موجود نہ تھا۔ حضرت عیسیٰ کے حواری بھی مارے ڈر کے غائب تھے اور اس موقع پر صرف یہودی حاضر تھے اور جو نصرانی حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے قائل ہوئے ہیں وہ بھی ان یہودیوں سے نقل کرتے ہیں۔ جو اس وقت ظالموں کے ممد اور مددگار تھے اور وہ کوئی مجمع کثیر نہ تھا کہ ان کا کذب عقلاً ممتنع ہو۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور مصلوب ہونے کی نفی کی ہے اور فرمایا کہ جمیع اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے اوّل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے اور قبل موتہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ ہیں۔ جمہور مفسرین کا یہ قول ہے اور بعض کا قول ہے کہ ضمیر کا مرجع یہود ہے اور یہ قول ضعیف ہے۔ جیسا کہ بعض نے مرجع حضورﷺ کو قرار دیا ہے۔ اس واسطے کہ کوئی اہل کتاب